بھوپال میونسپل کارپوریشن کے صدر کشن سوریہ ونشی نے کہا کہ جون میں منظور کی گئی یہ قرارداد میونسپل کمشنر کو بھیج دی گئی ہے۔
EPAPER
Updated: August 11, 2025, 7:23 PM IST | Bhopal
بھوپال میونسپل کارپوریشن کے صدر کشن سوریہ ونشی نے کہا کہ جون میں منظور کی گئی یہ قرارداد میونسپل کمشنر کو بھیج دی گئی ہے۔
مدھیہ پردیش کی بھوپال میونسپل کارپوریشن نے ایک قرارداد منظور کی ہے جس کے تحت بھوپال کے آخری نواب سر حمید اللہ خان کے نام سے منسوب شہر کے تین بڑے اداروں کے نام تبدیل کئے جائیں گے۔ ان اداروں میں حمیدیہ اسپتال، حمیدیہ کالج اور حمیدیہ اسکول شامل ہیں۔ کارپوریشن کے صدر کشن سوریہ ونشی نے کہا کہ جون میں منظور کی گئی یہ قرارداد میونسپل کمشنر کو بھیج دی گئی ہے اور اب ریاستی حکومت حتمی فیصلہ کرے گی۔
سوریہ ونشی نے انگریزی روزنامہ ’دی انڈین ایکسپریس‘ کو بتایا کہ ”ہم گزشتہ دو سال سے اس کا مطالبہ کر رہے تھے اور آخر کار وہ وقت آگیا ہے۔“ انہوں نے مزید کہا کہ ”ان اداروں کا نام ایک ایسے شخص کے نام پر رکھا گیا ہے جو بھوپال کا ہندوستان میں انضمام نہیں چاہتا تھا اور اس نے صرف ایک بڑی تحریک کے بعد ہی اسے ملک کے حوالے کیا۔ ایسے شخص کو کیوں عزت دی جائے؟“
اپوزیشن کا الزام
اس قرارداد نے سیاسی تنازع کو جنم دیا ہے جس کے بعد اپوزیشن نے مدھیہ پردیش ہائی کورٹ میں اسے چیلنج کیا ہے۔ بھوپال میونسپل کارپوریشن میں اپوزیشن لیڈر شبستہ ذکی نے دعویٰ کیا کہ اس اقدام میں شفافیت کی کمی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ”ایجنڈے میں کوئی تجویز نہیں تھی، کوئی بحث نہیں ہوئی اور انہوں نے اسے خفیہ طور پر منظور کردیا۔ اس کی کوئی قانونی حیثیت نہیں ہے۔“ انہوں نے مزید بتایا کہ اس معاملے میں چیف سیکریٹری سے شکایت کی گئی ہے۔
حمیدیہ اسپتال کی تاریخی جڑیں
حمیدیہ اسپتال، جو اب گاندھی میڈیکل کالج سے منسلک ایک ملٹی اسپیشلٹی اسپتال ہے، اصل میں ‘پرنس آف ویلز کنگ ایڈورڈ میموریل ہاسپٹل فار مین’ کے نام سے قائم کیا گیا تھا۔ ۱۹۲۷ء سے پہلے، یہ صرف ۲۵ بستروں کا اسپتال ہوا کرتا تھا اور اس کی عمارت کو بعد میں شہر کی کوتوالی میں تبدیل کردیا گیا تھا۔ بعد میں اسپتال کو وسعت دی گئی اور فتح گڑھ قلعے میں منتقل کیا گیا جہاں اسپتال نے بعد کی دہائیوں میں مزید ترقی کی۔
یہ بھی پڑھئے: کشمیر پر کتابوں پر پابندی؛ مصنفین کا شدید ردِعمل، پولیس کے کتب خانوں پر چھاپے
مؤرخ شاہ نواز خان نے نوابی ورثے کا دفاع کیا
بھوپال کے مؤرخ اور “بھوپال ریاست کی تاریخ (۱۹۴۹ء-۱۷۲۲ء)” کے مصنف شاہ نواز خان نے بھی عدالت میں اس نام کی تبدیلی کی مخالفت کی۔ ان کا کہنا ہے کہ اس اقدام کے ذریعے تاریخ کو مسخ کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ انہوں نے بتایا کہ ”نواب حمید اللہ نے ۱۹۴۹ء میں ہندوستان میں شمولیت اختیار کی اور ان کے خاندان کے ذریعے بنائے ۳۰۰ سے زائد ادارے ملک کے حوالے کئے۔ وہ اپنی انتظامی صلاحیتوں کیلئے جانے جاتے تھے۔ انہوں نے لڑکیوں کیلئے ایک اسکول بھی بنایا تھا۔ آپ انہیں غدار نہیں کہہ سکتے۔“ خان نے مزید کہا کہ اگرچہ حمید اللہ نے ابتدائی طور پر آزادی کے جذبے کی وجہ سے ہندوستان میں انضمام کے دستخط کو خفیہ رکھا تھا لیکن آخر کار انہوں نے بھوپال کو ہندوستانی یونین میں ضم کر دیا تھا۔