Inquilab Logo Happiest Places to Work

کشمیر پر کتابوں پر پابندی؛ مصنفین کا شدید ردِعمل، پولیس کے کتب خانوں پر چھاپے

Updated: August 08, 2025, 8:56 PM IST | New Delhi

جموں و کشمیر حکومت نے جن مصنفین کی کتابوں پر پابندی لگائی ہے، ان میں معروف اسلامی اسکالر سید ابوالاعلیٰ مودودی، مؤرخ عائشہ جلال، قانونی ماہر اے جی نورانی اور مصنفہ اروندھتی رائے شامل ہیں۔

Photo: INN
تصویر: آئی این این

جموں و کشمیر کے محکمہ داخلہ نے حال ہی میں ۲۵ کتابوں پر پابندی لگانے کا حکم جاری کیا جس کے بعد ملک بھر کے مصنفین، دانشوروں اور سماجی کارکنوں کی جانب سے اس فیصلے پر شدید تنقید کی جا رہی ہے۔ ان کتابوں پر ‘دہشت گردی کی تعریف کرنے’ اور ‘جھوٹا بیانیہ’ پھیلانے کا الزام لگایا گیا ہے اور اس ہفتے پولیس کی چھاپہ مار کارروائیوں کے بعد انہیں خطے کے کتب فروشوں اور پبلشرز سے ضبط کر لیا گیا۔ جن مصنفین کی کتابوں پر پابندی لگائی گئی ہے، ان میں معروف اسلامی اسکالر سید ابوالاعلیٰ مودودی، مؤرخ عائشہ جلال، قانونی ماہر اے جی نورانی، مصنفہ اروندھتی رائے، سیاسی ماہر سمنتر بوس اور کشمیری ماہرینِ تعلیم اطہر ضیا اور ایسر بتول شامل ہیں۔

یہ بھی پڑھئے: اروندھتی رائے کی کتاب سمیت حکومت ہند کی ’کشمیر تنازع‘ پر ۲۴؍ کتابوں پر پابندی

جموں و کشمیر حکومت کا دعویٰ ہے کہ جن کتابوں پر پابندی لگائی گئی ہے، وہ نوجوانوں کو گمراہ کرتی ہیں اور انہیں تشدد پر اکساتی ہیں۔ سرکاری حکم میں کہا گیا ہے کہ ”جھوٹی تاریخ یا سیاسی تبصروں کو دہشت گردی کی تعریف اور نوجوان ذہنوں کو گمراہ کرنے کیلئے استعمال کیا گیا ہے۔“

‘کشمیر کے ماضی کو مٹانے’ کی کوشش

پابندی لگائی گئی کتابوں کی فہرست میں امریکہ میں مقیم ماہرِ تعلیم حفصہ کنجوال کے ذریعے لکھی گئی کتاب ”کولونائزنگ کشمیر“ Colonizing Kashmir بھی شامل ہے جسے باوقار ایوارڈ برنارڈ ایس کوہن پرائز Bernard S. Cohn Prize سے نوازا گیا تھا۔ کنجوال نے اس اقدام کو کشمیر کی قبضے اور مزاحمت کی تاریخ کو مٹانے کی ‘واضح کوشش’ قرار دیا۔ انہوں نے کہا کہ ”اس پابندی کا مقصد کشمیر کے حقیقی بیانیے کو ایک ایسے بیانیے سے بدلنا ہے جو ہندوستانی ریاست کے ورژن کے مطابق ہو۔“ انہوں نے خبردار کیا کہ کشمیر میں سچ کو دبانے کیلئے طویل عرصے سے سینسرشپ کا استعمال کیا جا رہا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ “یہ پابندی حکومت کے عوام کی بیداری کے گہرے خوف کو ظاہر کرتی ہے۔ جب کتابوں پر پابندی لگتی ہے تو لوگوں کے تجسس میں اِضافہ ہوتا ہے، کمی نہیں آتی۔”

یہ بھی پڑھئے: ’’۵؍ اگست۲۰۱۹ء سیاہ دن تھا، جموں کشمیر کے عوام نے فیصلہ قبول نہیں کیا‘‘

‘حقائق پر حملہ’

صحافی اور مصنفہ انورادھا بھسین نے بھی اس اقدام کی سخت مذمت کرتے ہوئے اس کا موازنہ نازی دور کی سینسرشپ سے کیا۔ انہوں نے کہا کہ ان کی کتاب، جو ۲۰۲۲ء میں شائع ہونے کے باوجود پابندی کا سامنا کر رہی ہے، دہشت گردی کی تعریف نہیں کرتی بلکہ حقائق پیش کرتی ہے۔ انہوں نے سوال کیا کہ ”اگر دہشت گردی ختم ہو چکی ہے، جیسا کہ حکومت دعویٰ کرتی ہے، تو کتابوں پر پابندی کیوں لگائی جا رہی ہے؟“ بھسین نے کہا کہ حکومت اپنے تاثر کو بچانے اور عوامی سوچ کو دبانے کیلئے کسی بھی مخالف بیانیے کو خاموش کرنے کی کوشش کررہی ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ ”کشمیر میں کوئی حقیقی صحافت نہیں بچی ہے۔ پریس کو خاموش کرنے کے بعد، اب وہ کتابوں کے پیچھے پڑ گئے ہیں۔ یہ سوچنے کے حق پر حملہ ہے۔“

یہ بھی پڑھئے: الہ آباد ہائی کورٹ میں ۵؍ نئے ججوں کی تقرری، ۲؍ مسلمان

کشمیری مصنف مرزا وحید نے اس پابندی کو ’رجعتی‘ قرار دیا۔ انہوں نے کہا کہ ”ایک ریاست جو کتابوں اور علم سے خوفزدہ ہو، خود کو جمہوری نہیں کہہ سکتی۔“ انہوں نے سوال کیا کہ ”اب حکومت کا اگلا قدم کیا ہوگا؟ کیا شاعری پر بھی پابندی لگائی جائے گی؟“ وحید نے زور دے کر کہا کہ ایسی پابندیاں شاذ و نادر ہی کام کرتی ہیں۔ قارئین ہمیشہ کوئی نہ کوئی راستہ نکال لیتے ہیں۔ خیالات کو خوف سے روکا نہیں جا سکتا۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK