• Sat, 27 September, 2025
  • EPAPER

Inquilab Logo Happiest Places to Work

چوطرفہ تنقیدوں کے بعد چندر چُڈ صفائی دینے پر مجبور

Updated: September 27, 2025, 3:42 PM IST | Inquilab News Network | New Delhi

سابق چیف جسٹس کی ویڈیو کو جھٹلانے کی کوشش، دعویٰ کیا کہ ایودھیا سے متعلق بیان کو ’’سیاق و سابق سے ہٹاکر پیش کیاگیا۔‘‘

DY Chandrachud. Photo: INN
ڈی وائی چندر چڈ۔ تصویر: آئی این این

نئی دہلی(انقلاب بیورو):  سپریم کورٹ کے سابق چیف جسٹس ڈی وائی چندر چُڈ نےبابری مسجد  کے تعلق سے اپنے بیان پر چوطرفہ تنقیدوں کےبعد صفائی پیش کی ہے۔ نیوز لانڈری کے معروف صحافی سری نواسن جین کو دیئے گئے ان  کے انٹرویو کا مذکورہ  ویڈیو حالانکہ سوشل میڈیا پر موجود ہے، تاہم چیف جسٹس نےکہا ہے کہ ان کے بیان کو ’’سیاق وسباق  ‘‘ سے ہٹاکر پیش کیاگیاہے۔ مذکورہ بیان میں  چندر چُڈ نےدعویٰ کیاتھا کہ بابری مسجد کو رام جنم بھومی کی جگہ پر بنایا گیا تھا  اس لئے  اس کی تعمیر ہی غلط تھی۔ 
 اس کے ساتھ ہی چندر چُڈ  نے صفائی دی کہ بابری مسجد سے متعلق سپریم کورٹ کا فیصلہ عقیدے کی بنیاد پر نہیں بلکہ ثبوت اور قانونی اصولوں کی بنیاد پر دیاگیا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اس فیصلے میں سپریم کورٹ نے خود تسلیم کیا ہے کہ اس بات کاکوئی ثبوت نہیں  ملا کہ بابری مسجد رام مندر کی جگہ پر تعمیر ہوئی تھی۔عدالت نے اپنےفیصلے میں  یہ بھی مانا ہے کہ اس کی شہادت مجرمانہ عمل تھی اس کےباوجود کورٹ نے اپنے خصوصی اختیارات کا استعمال کرتے ہوئے مسجد کی زمین رام مندر کو دینے کا حکم سنایا۔ فیصلہ سنانےوالی بنچ میں جسٹس چندر چڈبھی موجود تھے۔ ڈی وائی  چندر چڈآج بھلے ہی یہ دعویٰ کررہے ہیں کہ بابری مسجد کیس کافیصلے عقیدے کی بنیاد پر نہیں سنایاگیاتھا مگر وہ یہ بھی بتا چکے ہیں کہ فیصلہ لکھنے سے قبل انہوںنے بھگوان کی پوجا کی تھی اور اس سے رہنمائی حاصل کی تھی۔انہوںنے کہا تھا کہ بابری مسجد اور رام جنم بھومی ایک انتہائی متنازع اور پیچیدہ فیصلہ تھا،جس کیلئے انہوں نے بھگوان سے رہنمائی طلب کی۔ بہرحال اپنے حالیہ بیان پر تنازع  کے بعد  صفائی پیش کرتے ہوئے چندر چڈ نے کہا ہے کہ سوشل میڈیا پر جو کچھ ہو رہا ہے وہ یہ ہے کہ لوگ جواب کے ایک حصے کو اٹھاتے ہیں اور اسے دوسرے حصے کے ساتھ جوڑ دیتے ہیں اور سیاق و سباق کو مکمل طور پر ہٹا دیتے ہیں۔انہوںنے زور دیا کہ ایودھیا فیصلہ ثبوتوں کی مکمل جانچ کا نتیجہ ہے۔چندر چوڑ نے مزید کہا کہ فیصلہ ایک ہزار ۴۵؍صفحات پر تھا اور مقدمہ کا ریکارڈ ۳۰؍ہزار سے زائد صفحات پر مشتمل ہے۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK