چھتیس گڑھ میں وی ایچ پی کے حملے اور مسلسل دھمکی کے سبب عیسائی خاندان روپوشی پر مجبورہے، خاندان کا کہنا ہے کہ پولیس نے ان کی مدد کرنے کے بجائے حملہ آوروں کا ساتھ دیا۔
EPAPER
Updated: May 29, 2025, 8:57 PM IST | Raipur
چھتیس گڑھ میں وی ایچ پی کے حملے اور مسلسل دھمکی کے سبب عیسائی خاندان روپوشی پر مجبورہے، خاندان کا کہنا ہے کہ پولیس نے ان کی مدد کرنے کے بجائے حملہ آوروں کا ساتھ دیا۔
چھتیس گڑھ میں رہنے والے کیرالا کے ایک مسیحی خاندان نے ہندو انتہا پسند گروپوں بجرنگ دل اور وشوا ہندو پریشد (وی ایچ پی) کے ہاتھوں مسلسل ہراسانی کا الزام لگایا ہے، جس کی وجہ سے انہیں اپنی جان بچانے کے لیے چھپنے پر مجبور ہونا پڑا۔ چھتیس گڑھ کے کاواردھا کے ایک پادری جوز تھامس پر ان ہندو انتہا پسند گروپوں کے کارکنوں نے حملہ کیا اور پولیس اسٹیشن گھسیٹ کر لے گئے۔ خاندان کا کہنا ہے کہ پولیس نے ان کی مدد کرنے کے بجائے حملہ آوروں کا ساتھ دیا۔ جوشوا کا خاندان اس کے والد جوز تھامس ( ۵۶؍ سالہ ) والدہ لِیجی تھامس ( ۴۶؍ سالہ) اور دو چھوٹے بھائی جوئل تھامس ( ۱۸؍ ساکی) اور جوزف تھامس ( ۱۷؍ سالہ)ملیالم مسیحی ہیں جو تقریباً۳۵؍ سال پہلے کیرالہ سے کبیردھام ضلع کے کاواردھا منتقل ہوئے تھے۔ جوشوا اور اس کے بہن بھائی وہیں پیدا ہوئے اور پلے بڑھے۔
یہ بھی پڑھئے: ’’ہارٹ لیمپ ‘‘ کے بکر پرائز جیتنے کے بعد کتاب کی زبردست مانگ
مکتوب سے بات کرتے ہوئے تھامس نے وضاحت کی کہ یہ جگہ، جہاں ہم رہتے ہیں، ہمیشہ سے سیاسی طور پر حساس رہی ہے، لیکن یہاں مسئلہ ایک انگریزی اسکول کا ہے جو ہمارے خاندان کے ذریعے قریب ہی چلایا جاتا ہے۔ ‘‘پادری جوز تھامس پچھلے۳۵؍ سالوں سے کاواردھا میں کام کر رہے ہیں۔ انہوں نے۱۹۹۹ء میں ہولی کنگڈم انگریزی ہائر سیکنڈری اسکول قائم کیا ، ضلع کا پہلا انگریزی میڈیم سی بی ایس ای اسکول۔ اس وقت اسکول میں تقریباً ۶۰۰؍طلباء زیر تعلیم ہیں۔ جب بھی کسی طالب علم سے فیس ادا نہ کرنے پر مطالبہ کیا جاتا، مقامی بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کے لیڈر آتے اور دھمکیاں دیتے۔ ۱۸؍ مئی کو آر ایس ایس اور وی ایچ پی کے غنڈوں نے جبری تبدیلی مذہب کا الزام لگا کر اس خاندان پر حملہ کر دیا۔ تاہم، خاندان کی مدد کرنے کے بجائے، پولیس نے جوز تھامس کو گرفتار کر لیا۔ جوشوا نے یہ بھی الزام لگایا کہ ان کے والد کے خلاف جھوٹی ایف آئی آر درج کی گئی، اس کے علاوہ خاندان کو مسلسل دھمکیاں مل رہی تھیں ۔ ریاستی ادارے لاتعداد تحقیقات اور تفتیشوں کے ذریعے تنگ کرتے رہے ہیں۔
یہ بھی پڑھئے: اتر پردیش کے ۱۲؍ اضلاع میں انکاؤنٹر
ان کے مطابق مقامی میڈیا نے ان سے ایک لاکھ روپئے کا مطالبہ کیا، اور نہ دینے کی صورت میں جبری مذہب تبدیلی کی فرضی خبریں شائع کردی، کہ وہ فیس معاف کروانے کے عوض مذہب تبدیل کروا رہے ہیں۔ جوشوا کے مطابق۱۸؍ مئی کو اتوار کی عبادت کے دوران، وی ایچ پی اور بجرنگ دل کےغنڈوں نے ’’جے شری رام‘‘ کے نعرے لگاتے ہوئے چرچ میں دھاوا بول دیا۔ اور خواتین سمیت تمام لوگوں کو تشدد کا نشانہ بنایا۔ حتی کہ پولیس اسٹیشن میں بھی خاندان کو ہراساں کیا۔ تاہم میڈیا سے بات کرتے ہوئے، ایڈیشنل ایس پی پشپندر سنگھ بگھیل نے کہا، ’’ وی ایچ پی اور بجرنگ دل گروپ کے کچھ اراکین نے شکایت کی تھی کہ آدرش نگر میں لوگوں کا غلط طریقے سے مذہب تبدیل کروایا جا رہا ہے۔ ان کی شکایت پر پولیس جگہ پر پہنچی۔ تقریباً ۲۰؍ سے ۲۵ء لوگ عبادت کیلئے آئے تھے، اور ہم ان سے پوچھ گچھ کر رہے ہیں۔ ان کے درمیان تکرار ہوئی، لیکن اسے حل کر لیا گیا ہے۔ ‘‘
حالانکہ پادری جوز نے یوٹیوب پر ہندی میں اور انسٹاگرام پر ملیالم میں ایک ویڈیو میں اپنی تکلیف دہ کہانی بیان کی ہے۔