ہندوستان کےچیف جسٹس گوئی کا آکسفورڈ یونین سے خطاب ، ہندوستانی آئین کو’ سیا ہی سےرقم کیا گیا ایک خاموش انقلاب ‘ قراردیا۔
EPAPER
Updated: June 13, 2025, 12:05 PM IST | Agency | Oxford
ہندوستان کےچیف جسٹس گوئی کا آکسفورڈ یونین سے خطاب ، ہندوستانی آئین کو’ سیا ہی سےرقم کیا گیا ایک خاموش انقلاب ‘ قراردیا۔
ہندوستان کے چیف جسٹس، جسٹس بی آر گوئی نے بدھ کو آکسفورڈ یونین میں خطاب کرتے ہوئے جہاں ہندوستانی آئین کا یہ وصف بیان کہ اسی آئین سے یہ ممکن ہوسکا ہےکہ جنہیں کبھی ’اچھوت‘ سمجھا جاتا تھا آج وہ حکومت کے اعلیٰ ترین عہدے پر ہے وہیں یہ بھی کہا کہ ملک میں عدالتی فعالیت (جیوڈیشل ایکٹیوزم) کی اپنی اہمیت ضرور ہے لیکن عدلیہ کو اپنی حدود کا بخوبی خیال رکھنا چاہئے تاکہ مداخلت وہاں نہ ہو جہاں اس کی ضرورت نہ ہو۔ انہوں نے دو ٹوک انداز میں کہا ’’عدالتی فعالیت کو عدالتی دہشت گردی میں تبدیل نہیں ہونا چاہئے۔ ‘‘
جسٹس بی آرگوئی آکسفورڈ یونیورسٹی میں آکسفورڈ یونین سوسائٹی میں ایک سوال کا جواب دے رہے تھے۔ انہوں نے کہا کہ بعض اوقات ایسا دیکھنے میں آتا ہے کہ عدلیہ اپنی حدود پار کرنے کی کوشش کرتی ہے اور ان دائرہ ہائےکار میں داخل ہو جاتی ہے جہاں اسے عام طور پر نہیں جانا چاہیے۔ انہوں نے متنبہ کیا کہ اس طرح کا رجحان جمہوری توازن کیلئے نقصان دہ ہو سکتا ہے۔ انہوں نے وضاحت کی کہ اگرچہ عدلیہ کو اپنے دائرے میں کام کرنا چاہئے لیکن جب مقننہ یا انتظامیہ شہریوں کے بنیادی حقوق کے تحفظ میں ناکام ہو جائیں تو عدلیہ کو مداخلت کرنی پڑتی ہے۔ تاہم، اس مداخلت کو محدود اور غیر معمولی حالات تک محدود رکھنا چاہئے۔
یہ بھی پڑھئے:احمد آباد طیارہ حادثے پر عالمی لیڈران کی جانب سے تعزیتی پیغامات
چیف جسٹس گوئی نے مزید کہا ’’اگر کوئی قانون آئین کی بنیادی ساخت کے خلاف ہو، یا بنیادی حقوق سے براہِ راست متصادم ہو، یا اگر وہ قانون سراسر امتیازی اور من مانا ہو، تو ایسی صورت میں عدالتوں کو مداخلت کا حق حاصل ہے اور عدلیہ نے ایسا کیا بھی ہے۔ ‘‘
اپنے ذاتی تجربے کا ذکر کرتے ہوئے چیف جسٹس گوئی نے کہا کہ ہندوستانی آئین نے ہی انہیں اس مقام تک پہنچایا ہے۔ انہوں نے کہا، ’’میں ایک دلت ہوں، ایک ایسی ذات سے میرا تعلق ہے جسے تاریخی طور پر `’اچھوت‘ کہا جاتا تھا لیکن آج میں سپریم کورٹ کا چیف جسٹس ہوں اور آکسفورڈ یونین سے خطاب کر رہا ہوں ۔ یہ ہندوستانی آئین کی دین ہے۔ ‘‘
چیف جسٹس گوئی نے ہندوستانی آئین کو ’سیاہی میں رقم کیا گیا ایک خاموش انقلاب‘ قرار دیا اور کہا کہ اس آئین میں ان طبقات کی دھڑکنیں شامل ہیں جن کی آواز پہلے کبھی نہیں سنی گئیں۔ انہوں نے مزید کہا ’’ہندوستانی آئین صرف حقوق کی حفاظت کا حکم نہیں دیتا بلکہ فعال انداز میں سوسائٹی کو بہتر بنانے، بااختیار بنانے اور آگے بڑھنے کا تقاضا بھی کرتا ہے۔ ‘‘