• Tue, 21 October, 2025
  • EPAPER

Inquilab Logo Happiest Places to Work

موسمیاتی تبدیلی کا اثر: آئس لینڈ میں انسانی تاریخ میں پہلی بار مچھر دیکھے گئے

Updated: October 21, 2025, 4:01 PM IST | Reykjavík

آئس لینڈ میں دکھائی دینے والے حشرات کی شناخت Culiseta annulata کے طور پر کی گئی ہے۔ یہ شمالی یورپ میں پائے جانے والے مچھروں کی ایک قسم ہے جو سردی برداشت کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔

Photo: INN
تصویر: آئی این این

آئس لینڈ دنیا کا واحد ملک ہے جہاں مچھر نہیں پائے جاتے۔ لیکن شاید، وہ اب اپنا یہ اعزاز کھو سکتا ہے۔ انسانی تاریخ میں پہلی مرتبہ ایسا ہوا ہے کہ آئس لینڈ میں مچھر دیکھے گئے ہیں۔ گرین لینڈ کے قریب واقع اس یورپی ملک کے خوالفیورتھر علاقے کی وادی کیوس میں اس ماہ مچھر دریافت کئے گئے۔ مقامی میڈیا نے پیر کو اس کی اطلاع دی۔ 

حشرات الارض میں دلچسپی رکھنے والے بیورن ہیالٹاسن نے فیس بک گروپ ‘Skordyr á Íslandi’ (آئس لینڈ کے حشرات) میں سب سے پہلے ملک میں مچھر کے پائے جانے کی اطلاع دی۔ آئس لینڈ کی انسٹی ٹیوٹ آف نیچرل ہسٹری کے سائنسدانوں نے بعد میں اس کی تصدیق کی۔ ماہر حشریات ماتھیاس الفریڈسن نے آئس لینڈ میں دکھائی دینے والے حشرات کی شناخت Culiseta annulata کے طور پر کی۔ یہ شمالی یورپ میں پائے جانے والے مچھروں کی ایک قسم ہے جو سردی برداشت کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ انہوں نے امکان ظاہر کیا کہ یہ مچھر یہیں رہنے کیلئے آئے ہیں۔ الفریڈسن نے وضاحت کی کہ مچھروں کی یہ نوع سردیوں میں تہہ خانوں اور مویشیوں کی عمارتوں میں چھپ کر آئس لینڈ کی سردیوں میں زندہ رہ سکتی ہے۔

یہ بھی پڑھئے: کانگو میں ایبولا کا آخری مریض صحت یاب، ڈسچارج کر دیا گیا: ڈبلیو ایچ او

اگرچہ مچھر کبھی کبھار ہوائی جہازوں پر چھپ کر آئس لینڈ پہنچتے رہے ہیں، لیکن ایسا پہلی مرتبہ ہوا ہے کہ انہیں ملک میں زندہ اور افزائش نسل کرتے پایا گیا ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ اس دریافت نے ان دیرینہ پیشین گوئیوں کو سچ ثابت کردیا ہے کہ آئس لینڈ کی بدلتی آب و ہوا میں آخر کار مچھر پنپ سکتے ہیں۔ 

اس سے قبل ۲۰۱۵ء میں یہاں ’بائٹنگ مڈجیز‘ (Biting Midges) بھی دیکھی گئی تھیں جو جزیرے میں بڑھتی ہوئی گرمی کی ایک اور علامت ہے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ آئس لینڈ کا ماحول حشرات کیلئے زیادہ سازگار بن رہا ہے۔ سائنسدانوں نے خبردار کیا کہ آئس لینڈ میں مچھروں کی موجودگی، اس بات کو اجاگر کرتی ہے کہ موسمیاتی تبدیلی کی وجہ سے سردی برداشت کرنے والی انواع پہلے سے کہیں زیادہ شمال کی طرف پھیلنے کے قابل بنتی جارہی ہیں۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK