جماعت اسلامی کے دفتر میں منعقدہ میٹنگ میں علماء، مسجد کمیٹیوں کے ذمہ داران اورملّیو سماجی تنظیموں کے نمائندے شریک ہوئے۔
EPAPER
Updated: August 18, 2025, 12:29 PM IST | ZA Khan | Nanded
جماعت اسلامی کے دفتر میں منعقدہ میٹنگ میں علماء، مسجد کمیٹیوں کے ذمہ داران اورملّیو سماجی تنظیموں کے نمائندے شریک ہوئے۔
مسجدوں کے رجسٹریشن اور لاؤڈاسپیکر کے استعمال پر پولیس انتظامیہ کی جانب سے نافذ کی جانے والی پابندیوں کے سلسلے میں رہنمائی فراہم کرنے کے مقصد سے جماعت اسلامی ہند ناندیڑ کی جانب سے اتوار کو مشاورتی میٹنگ منعقد کی گئی جس میں مختلف مکاتب فکر کے علما، مسجد کمیٹیوں کے ذمہ داران اور شہر کی ملی و سماجی تنظیموں کے منتخب نمائندے شریک ہوئے۔ مہمان مقرر کی حیثیت سے جماعت اسلامی ہند مہاراشٹر کے شعبہ اوقاف کے ریاستی سیکریٹری مولانا فہیم فلاحی کو جالنہ سے مدعو کیا گیا تھا۔ اس موقع پر امیر مقامی عابد خان پٹھان، ایم پی جے کے ریاستی سیکریٹری محمد الطاف حسین، مولانا سلیمان رحمانی اور جماعت اسلامی ناندیڑ کے ناظم ضلع عبدالغفار چودھری بھی موجود تھے۔
افتتاحی کلمات میں ایم پی جے کے ریاستی سیکریٹری الطاف حسین نے کہا کہ موجودہ حکومت فرقہ پرستی اور تنگ نظری کی حامل ہے اور مسلمانوں کو قانونی و تکنیکی مسائل میں الجھا کر ان پر پابندیاں لگانے کی کوشش کر رہی ہے۔ بیف بین، مسجدوں سے لاؤڈاسپیکر ہٹانے کی سختی اور وقف ترمیمی قانون کی آڑ میں مدارس و مساجد کے انتظامی معاملات میں مداخلت اس کی نمایاں مثالیں ہیں۔ ایسے میں ملت کے باشعور افراد کو مل بیٹھ کر ایک مشترکہ لائحہ عمل اختیار کرنے کی ضرورت ہے۔
مولانا فہیم فلاحی نے اپنے خطاب میں کہا کہ وقف ترمیمی قانون ایک بڑی آزمائش بن کر سامنے آیا ہے۔ آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ نے اس کے خلاف سپریم کورٹ میں مقدمہ دائر کیا ہے جس کی سماعت مکمل ہوچکی ہے اور کسی بھی وقت فیصلہ آسکتا ہے۔ تاہم حکومت نے عدالت کے فیصلے سے قبل ہی وقف پورٹل شروع کرکے وقف جائیدادوں کے رجسٹریشن کیلئے نوٹیفکیشن جاری کر دیئے ہیں، جس سے عوام میں اضطراب پیدا ہوا ہے۔ اگر ۶؍ ماہ میں رجسٹریشن نہ کیا گیا تو کارروائی کا خوف ہے اور اگر جلدبازی میں رجسٹریشن کرایا گیا تو یہ قانون کو تسلیم کرنے کے مترادف ہوگا۔ انہوں نے مشورہ دیا کہ جب تک سپریم کورٹ کا فیصلہ نہیں آجاتا، نئے وقف پورٹل پر رجسٹریشن نہ کیا جائے۔ البتہ جن ۸؍ دستاویزات حکومت نے طلب کئے ہیں، ان کی تیاری ہر ادارے کو ابھی سے کر لینی چاہئے تاکہ مستقبل میں اگر رجسٹریشن لازمی ہو تو بروقت کارروائی کی جا سکے۔
مسجدوں سے لاؤڈاسپیکر ہٹانے کے بارے میں مولانا فہیم فلاحی نے کہا کہ سپریم کورٹ نے ایسی کوئی پابندی نہیں لگائی ہے۔ ممبئی پولیس ایکٹ کے تحت نوٹس دے کر سختی ضرور کی جا رہی ہے۔ اگر پولیس زبانی طور پر لاؤڈاسپیکر ہٹانے کا کہے تو ان سے تحریری نوٹس طلب کیا جائے کیونکہ صرف زبانی کہنے پر عمل کرنا درست نہیں۔ انہوں نے مزید بتایا کہ اس مسئلے پر بامبے ہائی کورٹ میں پٹیشن دائر کی گئی ہے اور عنقریب اس پر بھی فیصلہ آنے والا ہے جس کے بعد توقع ہے کہ پولیس کی سختی کم ہوگی اور ہٹائے گئے لاؤڈاسپیکر دوبارہ نصب ہو سکیں گے۔
میٹنگ کے اختتام پر امیر مقامی عابد خان پٹھان نے کہا کہ حکومت کی جانب سے مسلمانوں کے خلاف کئے جارہے ان غیر منصفانہ فیصلوں کے ذریعے مسلمانوں کو تکنیکی اور قانونی مسائل میں الجھاکر انہیں ان کے اصل مقصد یعنی دعوت دین کے فریضے کی ادائیگی سے روکنا ہے ۔وہ نہیں چاہتے مسلمان اسلام کی دعوت کو عام کرنے کاکام کریں تاکہ برادران وطن تک اسلام کا پیغام پہنچے اور وہ اسلام میں داخل ہونے والے بنے۔ ایسے میں ہمیں جہاں ایک طرف حکومت کی جانب سے لئےجارہے ہیں ان غیر منصفانہ فیصلوں ،تکنیکی اور قانونی مسائل کو بھی حل کرنا ہے ساتھ ہی اپنے فرائض منصبی کو بھی ادا کرتے رہنا ہے ۔
میٹنگ کے اختتام پر طے کیا گیا کہ مقامی سطح پر مسجد کمیٹیوں، ملی و سماجی تنظیموں اور علماء کو ساتھ لے کر ایک مشترکہ کمیٹی تشکیل دی جائے گی تاکہ ان مسائل کے حل کیلئے اجتماعی کوششیں کی جا سکیں۔ عنقریب ضلعی سطح پر ایک بڑی میٹنگ منعقد کی جائے گی جس میں ماہرین کو مدعو کرکے مزید رہنمائی فراہم کی جائے گی۔ میٹنگ میں شریک افراد نے سوالات کئے جن کے تسلی بخش جوابات دیئے گئے۔