• Sun, 16 November, 2025
  • EPAPER

Inquilab Logo Happiest Places to Work

ڈجیٹل ایگریکلچر مشن ۲؍: فرنٹیئر ٹیکنالوجی سے کاشتکاری بدلے گی

Updated: November 16, 2025, 6:04 PM IST | New Delhi

اگر ہندوستان کو ۲۰۴۷ء تک ایک ترقی یافتہ ملک بننا ہے تو زراعت کے لیے اعداد و شمار، اختراعات اور ٹیکنالوجی پرانحصار لازمی ہے۔ یہ بنیادی طور پر ’ہر کسان تک ٹیکنالوجی لانے‘ کا روڈ میپ ہے تاکہ کاشتکاری زیادہ منافع بخش، پائیدار اور مستقبل کے لیے تیار ہو سکے۔

Indian Farmers.Photo:INN
ہندوستانی کاشتکار۔تصویر:آئی این این

  اگر ہندوستان کو ۲۰۴۷ء تک ایک ترقی یافتہ ملک بننا ہے تو زراعت  کے لیے اعداد و شمار، اختراعات اور ٹیکنالوجی پرانحصار لازمی  ہے۔ یہ بنیادی طور پر ’ہر کسان تک ٹیکنالوجی لانے‘ کا روڈ میپ ہے تاکہ کاشتکاری زیادہ منافع بخش، پائیدار اور مستقبل کے لیے تیار ہو سکے۔  یہ ڈیٹا اور فرنٹیئر ٹیکنالوجی ہندوستان کی زراعت میں تکنیکی انقلاب لائے گی۔ نیتی آیوگ کی طرف سے حال ہی میں جاری کردہ ایک خصوصی رپورٹ کے مطابق’’ڈیجیٹل ایگریکلچر مشن ۲‘‘ کسانوں کو تکنیکی طور پر بااختیار بنائے گا۔ 
 نیتی آیوگ کی رپورٹ زراعت کا از سر نو تصور: فرنٹیئر ٹیکنالوجی سے چلنے والی تبدیلی کے لیے ایک روڈ میپ  ہندوستان کے زراعت کے شعبے میں درکار اہم تکنیکی تبدیلیوں کا خاکہ پیش کرتا ہے۔ یہ روڈ میپ ۲۰۴۷ء تک ملک کے ترقی یافتہ ہندوستان  کے ہدف کو حاصل کرنے کے لیے ڈیزائن کیا گیا ہے۔ رپورٹ میں اس بات پر بھی زور دیا گیا ہے کہ حقیقی تبدیلی صرف ٹیکنالوجی کو اپنانے سے نہیں، بلکہ  اسے ہوشیاری سے نافذ کرنے اور مربوط کرنے  سے آئے گی۔ 
 زراعت ہندوستان کی معیشت، روزگار اور غذائی تحفظ کی ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہے، اس لیے کسانوں کی آمدنی میں اضافہ اور پیداوار کو بہتر بنانا ایک اہم قدم ہے جس پر ترقی جاری رکھنا ضروری ہے۔ اس راستے کی بڑی رکاوٹوں میں موسمیاتی تبدیلی، محدود زمین، کم ہوتی پیداوار، تکنیکی تفاوت، ڈیٹا کی کمی اور مالی رکاوٹیں شامل ہیں۔ مزید برآں، مٹی اور دیگر اعداد و شمار کی کمی، کسانوں کے اعتماد کی کمی، ڈجیٹل تقسیم، ہنر کی کمی، سرمائے کی حدود اور پالیسی میں عدم مطابقت کو ہندوستانی زراعت کے زوال کے اہم عوامل کے طور پر دیکھا گیا ہے۔ 
 رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ہندوستان کے زرعی شعبے کو سنگین چیلنجوں کا سامنا ہے جو ترقی اور پیداوار میں رکاوٹ بن رہے ہیں۔ ملک کے ۸۶؍ فیصد کسانوں کے پاس کم اراضی والے کھیت ہیں، جن کی اوسط زمین ۷۴ء۰؍ہیکٹر ہے۔ کاشتکاری کے لیے اہم چیلنجوں میں کم پیداوار، چھوٹی زمینیں اور موسمیاتی تبدیلی کے اثرات شامل ہیں۔ فصل کے بعد نقصانات سالانہ ۱۸؍ بلین امریکی ڈالر سے زیادہ ہوتے ہیں اور بہت سے کسانوں کے پاس فنانس اور ٹیکنالوجی تک رسائی نہیں ہے۔ 
 نیتی آیوگ کی یہ رپورٹ بتاتی ہے کہ مصنوعی ذہانت (اے آئی)، ڈرون، سیٹیلائٹ امیجنگ، انٹرنیٹ آف تھنگز، بائیو ٹیکنالوجی اور درست زراعت جیسی نئی ٹیکنالوجیز کاشتکاری کو زیادہ پیداوار والی، پائیدار اور منافع بخش بنا سکتی ہیں۔ رپورٹ میں زراعت میں ان ٹیکنالوجیز کے استعمال کو ’’ڈجیٹل ایگریکلچر مشن ۲؍کہا گیا ہے۔ 
یہ مشن تین ستون پر مشتمل منصوبہ ہے۔ پہلا ستون توسیع ہے، جس میں ایک جامع ڈیٹا سسٹم، ڈجیٹل ایڈوائزری اور ایگریٹیک اسٹارٹ اپس کا فروغ شامل ہے۔ دوسرا  ستون دوبارہ تصور کرنا ہے، جس میں ایک نئی تحقیقی پالیسی، صنعت کے موافق تعلیم اور ہنر کی نشوونما شامل ہے۔ تیسرا ستون زرعی آپریشنز کا انضمام ہے، جس میں سرکاری اور نجی شعبے کا تعاون، پالیسی ڈائیلاگ اور ٹیکنالوجی کے اختراعی مراکز یا سینٹرز آف ایکسیلینس کا قیام شامل ہے۔ 

یہ بھی پڑھئے:کرسیل رپورٹ: دوسری سہ ماہی میں کمپنیوں کی آمدنی میں ۵؍ سے ۶؍فیصدتک اضافہ ہوا

ساتھ ہی رپورٹ میں کسانوں کی تین اقسام کی مزید نشاندہی کی گئی ہے۔ پہلی قسم خواہش مند کسان  ہے، جو کسانوں کی کل آبادی کا ۷۰؍ سے۸۰؍ فیصد ہیں۔ اس گروپ کے کسانوں کے پاس بہت کم زمینیں ہیں اور ان کا انحصار بارش پر ہے۔ دوسری قسم کو  تبدیلی کے خواہاں کاشتکار کہا جاتا ہے۔ یہ متوسط طبقے کے کسان ہیں جو ٹیکنالوجی کو اپنانے کے خلاف نہیں ہیں لیکن ایسا کرنے سے قاصر ہیں۔ ان کی کل تعداد ۱۵؍ سے ۲۰؍ فیصد ہے  جبکہ صرف ایک سے دو فیصد کے پاس بڑی زمینیں ہیں اور وہ  اختراع پر مبنی  ہیں، یعنی وہ نئی ٹیکنالوجی کو تیزی سے اپناتے ہیں۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK