Inquilab Logo

کیا آپ جانتے ہیں کہ مراٹھاریزرویشن میں کیا پیچیدگیاں ہیں؟ جانئے۵؍ سوالوں کےجواب

Updated: February 23, 2024, 11:26 AM IST | Inquilab News Network | Mumbai

ریاستی حکومت نے ملازمتوں میں مراٹھا سماج کیلئے۱۰؍ فیصد کوٹہ مختص کرنے کا قانون منظور کر لیا ہے لیکن گزشتہ ۶؍ ماہ سے ریزرویشن کیلئے احتجاج کرنے والے منوج جرنگے اس سے مطمئن نہیں ہیں اور انہوں نے اب ریاست بھر میں راستہ روکو آندولن کا اعلان کیا ہے۔

Maratha social activist Manoj Jurnge. Photo: INN
مراٹھا سماجی کارکن منوج جرنگے۔ تصویر : آئی این این

 ریاستی حکومت نے ملازمتوں میں مراٹھا سماج کیلئے۱۰؍ فیصد کوٹہ مختص کرنے کا قانون منظور کر لیا ہے لیکن گزشتہ ۶؍ ماہ سے ریزرویشن کیلئے احتجاج کرنے والے منوج جرنگے اس سے مطمئن نہیں ہیں اور انہوں نے اب ریاست بھر میں راستہ روکو آندولن کا اعلان کیا ہے۔ ان کالموں میں ہم یہ سمجھنے کی کوشش کر تے ہیں کہ حکومت نے جو ریزرویشن دیا ہے وہ کیا ہے اور جرنگے جس ریزرویشن کا مطالبہ کر رہے ہیں اس میں کیا پیچیدگی ہے۔ 
 حکومت کا دیا ہوا ۱۰؍ فیصد ریزرویشن 
وزیر اعلیٰ ایکناتھ شندے نے خصوصی اجلاس بلا کر جو ریزویشن کا مسودہ تیار کیا ہے اس کی رو سے ریاست میں ریزرویشن کے موجودہ کوٹے (۵۰؍ فیصد) کے علاوہ ۱۰؍ فیصد ریزرویشن دیا جائے گا یعنی سپریم کورٹ کی جانب سے مقرر کردہ ۵۰؍ فیصد کی حد کو ختم کر دیا جائے گا۔ اگر اس فیصلے کو عدالت میں چیلنج کیا گیا تو یہ کالعدم قرار دیا جائے گا ٹھیک ویسے ہی جیسے اس سے قبل دیویندر فرنویس حکومت کا دیا ہوا ۱۶؍ فیصد کوٹہ مسترد کر دیاگیا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ منوج جرنگے اس کی مخالفت کر رہے ہیں۔ حالانکہ حکومت کا کہنا ہے کہ اس نے یہ فیصلہ پسماندہ طبقات کمیشن کے سروے کے بعد کیا ہے جس کی رپورٹ میں مراٹھا سماج کو ریزرویشن کا مستحق قرار دیا گیا ہے۔ 
 پسماندہ طبقات کمیشن کا سروے کیا تھا؟ 
 کمیشن نے گھر گھر جا کر یہ معلوم کرنے کی کوشش کی تھی کہ ریاست میں کتنے مراٹھا ہیں اور ان کی معاشی و سماجی حالت کیا ہے۔ اس کیلئے ہر گھر میں ۱۸۴؍ سوالات پوچھے گئے تھے۔ ۶۲؍ لاکھ خاندانوں سے گفتگو کرنے کے بعد اس سروے کی رپورٹ تیار کی گئی تھی۔ 
منوج جرنگے کیا چاہتے ہیں ؟ 
 مراٹھا کارکن منوج جرنگے کا کہناہے کہ مراٹھا دراصل کنبی (کسان) ہیں اسلئے پورے سماج کو کنبی تسلیم کرکے انہیں سرٹیفکیٹ جاری کیا جائے اور اوبی سی سماج کے موجودہ (۲۷؍ فیصد) کوٹے میں انہیں بھی شامل کیا جائے۔ ان کا کہنا ہے کہ پرانے ریکارڈ میں جن لوگوں کے نام کنبی زمرے میں درج ہیں ان کے سگے سوئرے( رشتہ داروں ) کو بھی او بی سی تسلیم کیا جائے اور ریزرویشن کا حقدار بنایا جائے۔ ۲۶؍ جنوری ۲۰۲۴ء کو نوی ممبئی میں وزیراعلیٰ نے جو جی آر دیا تھا اس میں یہی درج تھا۔ 
سگے سوئرے (رشتہ دار) کیا ہے؟
 کنبی سماج کا نام او بی سی میں پہلے ہی درج ہے۔ اس ریزرویشن کا فائدہ اٹھانے کیلئے ضروری ہے کہ آپ کا یا آپ کے باپ دادا کا نام کنبی فہرست میں درج ہو۔ فی الحال یہ طریقہ ہے کہ جس شخص کا نام کنبی فہرست میں یا اس سلسلے میں شامل ہے اسی کو ریزرویشن دیا جاتا ہے۔ اس کے بھائی یا بہن کو اس کا مستحق نہیں سمجھا جاتا۔ منوج جرنگے کا کہنا ہے کہ اگر ایک شخص کے چچا کا نام کنبی فہرست میں مل گیا تو خود بخود چچا کے سگے بھائی یعنی متعلقہ شخص کے والد بھی کنبی ہوئے۔ بھلے ہی ان کا نام پرانے کسی ریکارڈ میں شامل نہ ہو۔ اس کیلئے علاحدہ جانچ کی ضرورت نہیں ہے۔ یعنی ایک شخص کنبی ثابت ہو گیا تو اس کے بھائی بہن اور بھتیجے بھتیجی خود بخود کنبی کہلائیں اور ریزرویشن کے مستحق ہوں گے۔ اس پر او بی سی سماج کو اعتراض ہے۔ 
 کنبی سرٹیفکیٹ اور نظام شاہی کا تعلق
مہاراشٹر کا وہ خطہ جو آج مرا ٹھواڑہ کہلاتا ہےآزادی سے قبل ریاست دکن کا حصہ ہوا کرتا تھا۔ صدیوں سے جہاں نظام شاہی حکومت تھی۔ لہٰذا آزادی سے قبل اس خطے کے جو بھی سرکاری ریکارڈ ہیں وہ نظام شاہی حکومت کے زیر انتظام جاری ہوا کرتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ مراٹھا تحریک میں بار بار نظام اور ان کے زمانے کی دستاویز کا تذکرہ آ رہا ہے۔ حالیہ طریقہ یہ ہے کہ نظام کے زمانے میں جن لوگوں کے ریکارڈ میں کنبی درج ہے انہیں ا و بی سی سمجھا جاتا ہے۔ چونکہ مراٹھا سلطنت کی وجہ سے مراٹھا سماج کا ریاست میں دبدبہ تھا اور ان کے ساتھ امتیازی سلوک کا تصور ختم ہو چکا تھا اسلئے نظام شاہ کے زمانے میں اس سماج کے اثر دار یا خوشحال گھرانوں نے اپنے نام کے آگے کنبی کے بجائے مراٹھا لکھنا شروع کر دیا۔ یہی وجہ ہے کہ بعض مراٹھوں کے نام سلسلہ وار طریقے سے ان کے آباواجداد تک بطور کنبی درج ہیں اور بعض کے اپنے نام تو مراٹھا زمرے میں ہیں اور ان کے باپ دادا کے کنبی فہرست میں۔ بعض کے نام کئی نسلوں سے مراٹھا زمرے ہی میں ہیں۔ سکل مراٹھا سماج یا منوج جرنگے کا مطالبہ ہے کہ ان تمام کو ایک ( مراٹھا یا کنبی ) ہی تصور کیا جائے اور ریزرویشن جاری کیا جائے۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK