پہلگام حملے کا اثر ، پونے کے ایک گائوں میں باقاعدہ گرام پنچایت میں قرار داد منظور کی گئی،کئی گائوں ایسے ہیں جہاں زبانی طور پر اسی طرح کی پابندی عائد کی گئی ہے۔
EPAPER
Updated: May 02, 2025, 11:06 AM IST | Agency | Pune
پہلگام حملے کا اثر ، پونے کے ایک گائوں میں باقاعدہ گرام پنچایت میں قرار داد منظور کی گئی،کئی گائوں ایسے ہیں جہاں زبانی طور پر اسی طرح کی پابندی عائد کی گئی ہے۔
پہلگام حملے کے بعد مسلمانوں کے بائیکاٹ تو کہیں ان پر پابند عائد کرنے کے اشتعال انگیز مطالبات ہو رہے ہیں۔ کہیں یہ سب سرعام کیا جا رہا ہے تو کہیں بالواسطہ ہو رہا ہے۔ پونے ضلع میں واقع ایک گائوں پرنگوٹ میں ایسا ہی معاملہ سامنے آیا ہے جہاں گائوں کی مسجد میں گائوں کے باہر سے آنے والے نمازیوں کے داخلے پر پابندی عائد کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ بظاہر یہ فیصلہ مسلمانوں نے کیا ہے مگر اس کی قرار داد گرام پنچایت میں منظور کی گئی ہے۔ پُر امن طریقے سے کیا گیا یہ اقدام درحقیقت مسلم سماج کی سرگرمیوں پر قدغن لگانے ہی کی ایک کوشش نظر آتی ہے۔
بی بی سی سمیت متعدد نیوز ویب سائٹ نے اس خبر کو شائع کیا ہے کہ پونے ضلع کے مولشی تعلقے میں واقع پرنگوٹ گائوں کی مسجد میں گائوں کے باہر سے نماز کیلئے آنے والے مسلمانوںکے داخلے پر پابندی عائد کر دی گئی ہے۔ میڈیا رپورٹ کے مطابق جب آپ پرنگوٹ گائوں میں داخل ہوتے ہیں تو جگہ جگہ لگے بینر آپ کا استقبال کرتے ہیں جن پر لکھا ہے’’ پرنگوٹ گائوں میں باہر سے آنے والے تمام مسلم بھائیوں کو مطلع کیا جاتا ہے کہ گائوںکے تمام باشندوں ، پرنگوٹ کے اور مقامی مسلم بھائیوں نے خصوصی اجلاس میں یہ قرار داد منظور کی ہے کہ گائوں کی مسجد میں گائوں کے مسلم بھائیوں کے علاوہ ریاست کے باہر سے آنے والے یا کاروبار کیلئے ۵؍ کوس کے فاصلے پر مقیم بھائی ، نیز آس پاس کے علاقوں میں رہنے والے دیگر مسلم بھائیوں کا داخلہ اور عبادت کرنا سیکوریٹی کے لحاظ سے ممنوع ہے۔
آگے بینر پر لکھا ہے کہ ’’ باہر کے لوگوں کے آنے سے مسجد میں گنجائش سے زیادہ افراد جمع ہو جاتے ہیں ۔ اس کی وجہ سے گائوں کا نظم ونسق اور امن و امان متاثر ہوتا ہے ۔ لہٰذا اس مسجد میں صرف مقامی مسلمان ہی نماز ادا کریں گے۔ اس تعلق سے ریاست کے باہر سے آنے والے اور ، ۵؍ کوس کے فاصلے پر رہنے والے افراد دھیان دیں۔ ‘‘ اس بورڈ کے نیچے درج ہے ’’ گائوں کے تمام باشندے‘‘
گائوں کے سرپنچ چانگ دیو پووڑے کا کہنا ہے کہ ’’ اس مسجد میں گنجائش سے زیادہ گردی ہو جاتی ہے۔ یہاں آنے والے لوگ کون ہیں؟ ان کی شناخت کرنی ممکن نہیں تھی۔ ان لوگوں کے پاس کسی بھی طرح کا آئی کارڈ نہیں تھا۔ لہٰذا سیکوریٹی کے معاملے کو مدنظر رکھتے ہوئے ہم نے پابندی عائد کرنے کا فیصلہ کیا۔ ‘‘ سرپنچ کا کہنا ہے کہ ’’ گرام پنچایت کے ہال میں ہوئی اس میٹنگ میں گائوں کے مسلمان بھی موجود تھے اور ان کی طرف سے بھی اس فیصلے کو حمایت حاصل ہے۔ ‘‘ گائوں میں رہنے والے پولیس پاٹل پرکاش پوولے کا کہنا ہے کہ اب ہر جمعہ کو یہاں نماز کیلئے آنے والوں کا آئی ڈی پروف (شناختی ثبوت ) چیک کیا جائے گا۔ پرکاش کہتے ہیں ’’ گزشتہ جمعرات کو گائوں کے لوگوں کی میٹنگ ہوئی ۔ اس میں مسلم ، مراٹھا ، سبھی سماج کے لوگ تھے۔ ہمارے گائوں میں اتحاد ہے لیکن یہاں ایک ہی سماج کے لوگ زیادہ آتے ہیں۔ اس کی وجہ سے آنے جانے والوں کو تکلیف ہوتی ہے۔ گزشتہ دنوں کالج سے ہماری لڑکیاں آ رہی تھیں مگر مسجد کے باہر آنے جانے کی جگہ نہیں تھی۔ ہم نے مولانا سے پوچھا تو انہوں نے بتایا کہ باہر سے لوگ آتے ہیں نماز پڑھنے کیلئے اس لئے بھیڑ ہو جاتی ہے۔ گزشتہ ۲؍ یا ۳؍ جمعہ ہی سے آ رہے ہیں۔ اس لئے ہم نے ان پر پابندی عائد کر دی ہے۔ صرف باہر کے لوگوں پر پابندی ہے۔ گائوں کے لوگوں سے ہمیں کوئی شکایت نہیں ہے۔
بظاہر یہ پُر امن طریقے سے عائد کردہ پابندی نظر آتی ہے لیکن پرنگوٹ صرف اکیلا گائوں ایسا نہیں ہےجہاں اس طرح کا اقدام کیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ گھوٹاوڑے، لائولے اور وڑکی گائوں میں بھی اس طرح کی پابندی عائد کی گئی ہے ۔ البتہ ان مقامات پر اس طرح گرام پنچایت میں باضابطہ طور پر قرار داد منظور نہیں کی گئی ہے بلکہ زبانی طور پر پابندی لگائی گئی ہے۔ ان کے علاہ، کھیڈ اور شیوا پور میں بھی اس طرح کے بینر دکھائی دیتے ہیں۔ یہ بینر کس نے لگائے ہیں اس کا کسی کو علم نہیں ہے۔ گائوں کے باشندے ان بینروں سے لاعلمی کااظہار کرتے ہیں۔
لائولے گائوں میں واٹس ایپ کے ذریعے اس طرح کی پابندی عائد کرنے کا اعلان کیا گیا ہے۔ لائولے گائوں کے شائستہ خان کہتے ہیں کہ شروع میں یہاں بھی باہر سے آنے والے تمام لوگوں پر پابندی عائد کرنے کا فیصلہ کیا گیا تھا لیکن میں نے اس فیصلے کی مخالفت کی کیونکہ کچھ لوگ گائوں سے باہر رہتے ہیں لیکن وہ دس بیس سال سے یہاں نماز پڑھنے آتے ہیں۔ ہم انہیں کیسے منع کر سکتے ہیں؟ اس کے بعد یہ فیصلہ کیا گیا کہ جو انجان لوگ ہیں صرف ان کی آمد پر پابندی لگائی جائے۔