Inquilab Logo

اردو کے مشہور ادیب سلام بن رزاق کا ۸۳؍ سال کی عمر میں انتقال

Updated: May 07, 2024, 2:38 PM IST | Mumbai

شیخ عبدالسلام عبدالرزاق اپنے قلمی نام سلام بن رزاق کے نام سے مشہور تھے۔ ان کی پیدائش پنویل میں ہوئی تھی۔ ۲۰۰۴ء میں انہیں اردو کا ساہتیہ اکیڈمی ایوارڈ تفویض کیا گیا تھا۔ تدفین آج شام بعد نماز مغرب مرین لائنس قبرستان (بڑا قبرستان) میں عمل میں آئے گی۔

Salam bin Razzaq. Photo: INN
سلام بن رزاق۔ تصویر: آئی این این

اردو کے مشہور ادیب سلام بن رزاق کا آج ممبئی میں ۸۳؍ سال کی عمر میں انتقال ہوگیا۔ ان کا اصل نام شیخ عبدا لسلام عبدالرزاق تھا۔ انہیں ان کے مختر کہانیوں کے مجموعے ’’شکستہ بتوں کے درمیان‘‘ کیلئے ۲۰۰۴ء میں اردو کا ساہتیہ اکیڈمی ایوارڈ تفویض کیا گیا تھا۔ 
ان کی تدفین آج بعد نماز مغرب مرین لائنس قبرستان (بڑا قبرستان) میں عمل میں آئے گی۔

بر صغیر کے صف اول کے افسانہ نگار، ادیب، مترجم اور معلم سلام بن رزاق کافی عرصے سے بستر علالت پر تھے لیکن اس دوران بھی ان کی علمی و ادبی سرگرمیاں جاری تھیں۔ پسماندگان میں بیوہ، ایک بیٹی، ایک بیٹا، پوتے پوتیاں اور نواسے نواسیاں شامل ہیں۔ آپ عصری اردو افسانہ کاسب سے معتبر نام تھے۔ ہر چند کہ ان کا تعلق ممبئی سے تھا لیکن ان کا آبائی وطن خطہ کوکن کا معروف قصبہ پنویل تھا جہاں سے وہ۶۰ء کی دہائی میں بغرض ملازمت ممبئی تشریف لائے تھے۔ یہاں انہوں نے تقریباً ۳۷؍ سال ممبئی میونسپل کارپوریشن کے اسکولوں میں بطور استاذفرائض انجام دئیے اور ۹۰ء کی دہائی میں بطور ہیڈ ماسٹر وظیفہ حسن خدمت پر سبکدوش ہوئے۔ 
انہوں نے اپنی علمی و ادبی زندگی کا بڑا حصہ کرلا قریش نگر اور اطراف کے علاقوں میں گزارا لیکن ادھر کچھ عرصے سے پہلے وہ میرا روڈ منتقل ہو ئے پھروہاں سے نوی ممبئی کے اُلوے چلے گئے تھے۔ سلام بن رزاق کی قدر و منزلت نہ صرف اردو کے حلقوں میں بلکہ ہندی اور مراٹھی میں بھی یکساں تھی۔ حالانکہ وہ بطور شاعر ادبی حلقوں میں داخل ہوئے تھے لیکن ان کی شہرت ان کے افسانوں کی وجہ سے ہوئی جن کی فکر، فنی شعور، منفرد اسلوب و انداز، تخلیقی ہنر مندی، زبان و بیان کی ندرت، کہانیوں کی بے مثال بنت، بیانیہ اورموضوعات نے اردو حلقوں میں کئی اذہان کو متاثر کیا۔ انہوں نے ترقی پسند تحریک کے عروج کے دور میں افسانہ نگاری کا آغاز کیا لیکن وہ کسی تحریک سے متاثر ہوئے بغیر لکھتے رہے۔ انہوں نے کہانی کہنے کی اپنی راہ نکالی اور وہ موضوعات منتخب کئے جو ممبئی کی معاشرتی زندگی کے چلتے پھرتے کردار تھے۔ 
افسانوں کے علاوہ سلام صاحب نے ڈرامے، تنقیدی مضامین، بچوں کا ادب اور ترجمہ نگاری پر بھی خصوصی توجہ دی۔ ان کی تخلیقات اور تحریروں کو برصغیر کے تمام موقر رسالوں نے اہتمام سے شائع کیا۔ پچاس سے زائد افسانے ریڈیو آکاش وانی سے نشر ہوئے جبکہ ایک درجن سے زائد افسانوں کوڈراموں کی شکل میں پیش کیا گیا۔ انہوں نے متعدد فلموں اور ٹی وی سیریلوں میں رائٹر اور اسسٹنٹ رائٹر کے طور کام کیا۔ آدھا درجن کے قریب رسائل نے سلام صاحب کے فن پر نمبر اور گوشے نکالے نیز معروف ناقدین نے ان کی فنی ہنر مندیوں کا کھلے دل سے اعتراف کیا۔ اسی کے ساتھ ہی ان کی فکر و فن پر چند پی ایچ ڈی اور درجن بھر کے قریب ایم فل کے مقالے بھی لکھے گئے۔ 
سلام بن رززاق نے ہندی مراٹھی اور اردو سے معکوس ترجمہ نگاری بھی کی اور بال بھارتی کی لسانی و نصابی کمیٹی کے اہم رکن رہے۔ ان کی کل ۲۲؍کتابیں منظر عام پر آ چکی ہیں جن میں چار افسانوی مجموعے’’ `ننگی دوپہر کا سپاہی‘‘، `’’معبر‘‘ `، ’’ `شکستہ بتوں کے درمیاں‘‘ ` اور’’ `زندگی افسانہ نہیں‘‘ ` قابل ذکر ہیں۔ سلام بن رزاق کو ادبی خدمات کے لئے ملک کے سرکاری و غیر سرکاری اداروں نے ۴۰؍سے زائد انعامات و اعزازات سے نوازا جن میں ساہتیہ اکیڈمی ایوارڈ سے لے کر مہاراشٹر اردو اکیڈمی کے ایوارڈ تک سبھی شامل ہیں۔ وہ گزشتہ چار پانچ سال سے وہاٹس ایپ پر بزم افسانہ کی سر پرستی فرمارہے تھے۔ ان کی نگرانی میں اس بزم نے اردو افسانے کے ذیل میں جو خدمات پیش کی ہیں وہ ناقابل فراموش ہیں۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK