شولاپور میں وزیر اعلیٰ فرنویس کا قافلہ روکا گیا ، عثمان آباد میں نائب وزیر اعلیٰ شندے اور نگراں وزیر کا گھیرائو، جالنہ میں وزیر زراعت سے سخت سوالات، فوری امداد کامطالبہ۔
EPAPER
Updated: September 25, 2025, 3:58 PM IST | Inquilab News Network | Sholapur/Osmanabad
شولاپور میں وزیر اعلیٰ فرنویس کا قافلہ روکا گیا ، عثمان آباد میں نائب وزیر اعلیٰ شندے اور نگراں وزیر کا گھیرائو، جالنہ میں وزیر زراعت سے سخت سوالات، فوری امداد کامطالبہ۔
ریاست کے مختلف علاقوں میںبارش کے سبب سیلابی کیفیت ہے جس میں کسانوں کا بڑے پیمانے پر نقصان ہوا ہے۔ ان کے مکانات گر گئے، جانور بہہ گئے اور فصلیں برباد ہوگئیں۔ اب ان کسانوں کی ناراضگی چھلکنے لگی ہے۔ بدھ کے روز الگ الگ مقامات پر یہ ناراضگی دکھائی دی۔ شولا پور میں وزیر اعلیٰ دیویندر فرنویس کا قافلہ روکنے کی کوشش کی گئی جبکہ عثمان آباد میں نائب وزیر اعلیٰ ایکناتھ شندے کا گھیرائو کیا گیا اور ناسک میں وزیر زراعت دتاتریہ بھرنے کو بھی کسانوں کے تلخ سوالات کا سامنا کرنا پڑا۔
یاد رہے کہ ایک روز قبل ہی وزیر اعلیٰ فرنویس نے بارش اور سیلاب سے متاثر کسانوں کی امداد کیلئے ۲؍ ہزار ۲۱۵؍ کروڑ روپے مختص کرنے کا اعلان کیا ہے لیکن انہوں نے امداد جاری کرنے کی کوئی تاریخ نہیں بتائی۔ اس پر کسان ناراض ہیں۔ ان کا کہناہے کہ ہمیں اعلان نہیں بلکہ اقدام چاہئے۔ بدھ کو وزیر اعلیٰ نے شولاپور کا دورہ کیا جہاں انہوں نے ماڈھا تعلقے میں کچھ کسانوں سے ملاقات کی اور نقصانا ت کا جائزہ لیا۔ ماڈھا تعلقے میں واقع سینا ندی میں طغیانی کے باعث پانی آس پاس کے گائوں میں گھس آیا تھا جس کی وجہ سے بڑے پیمانے پر مقامی باشندوں کا نقصان ہوا۔ وزیر اعلیٰ نے سینا دارپھل اور نم گائوں کا دورہ کیا اور کسانوں سے مل کر اپنے اس اعلان کو دہرایا کہ دیوالی سے قبل کسانوں کے اکائونٹ میں پیسہ جمع کروا دیا جائے گا۔ یہاں سے وزیراعلیٰ ماڈھا تحصیل دفتر کیلئے لوٹ رہے تھے کہ راستہ میں کسانوں نے ان کے قافلے کو روک لیا۔ ان کسانوں کا کہنا تھا کہ وزیر اعلیٰ صرف اعلان نہ کریں بلکہ فوری طور پر امداد فراہم کریں۔ وزیراعلیٰ کا اعلان ایسا ہی ہے جیسے لومڑی کے گھر کی دعوت۔ کسانوں کا مطالبہ ہے کہ انہیں فی ہیکٹر ۵۰؍ ہزار روپے بطور نقصان بھرپائی ادا کئے جائیں۔ پولیس نے کسی طرح کسانوں کو وہاں سے ہٹایا اور وزیر اعلیٰ کا قافلہ آگے بڑھا۔
نہیں چاہئے آپ کی مدد
عثمان آباد میں کچھ اسی طرح کی صورتحال کا سامنا نائب وزیر اعلیٰ ایکناتھ شندے کو بھی کرنا پڑا۔ ایکناتھ شندےبدھ کو عثمان آباد کے نگراں وزیر پرتاپ سرنائیک کے ساتھ رکن اسمبلی تانا جی ساونت کے حلقہ انتخاب بھوم پراندا میں نقصان کا جائزہ لینے پہنچے۔ انہیں ضلع کے مختلف گائوں کا دورہ کرنا تھا لیکن عثمان آبادپہنچتے ہی کسانوں نے شندے کو گھیر لیا۔ انہیں اس بات کا غصہ تھا کہ امداد کے نام پر جو اناج وغیرہ وہاں تقسیم کیا گیا تھا ان کے پیکٹ اور بوروں پر ایکناتھ شندے اور پرتاپ سرنائیک کی تصویریں تھیں ۔ کسانوں کا الزام ہے کہ وہ سرکاری پیسے پر یہ لیڈران اپنی تشہیر کر رہے ہیں۔ کئی جگہ پر کسانوں نے کہہ دیا کہ ہمیں آپ کی مدد نہیں چاہئے اسے واپس لے جائیے۔ یہ شکایت کسانوں نے ایکناتھ شندے کے سامنے بھی کی۔ شندے نے ان سے کہا کہ آپ تصویریں مت دیکھئے۔ امداد کو دیکھئے اور اسے قبول کیجئے۔ کسانوں نے شندے سے بھی مطالبہ کیا حکومت صرف اعلانات نہ کرے بلکہ فوری طور پر امداد جاری کرے۔ شندے نے اس تعلق سے فوری اقدامات کی یقین دہانی کروائی۔
یہ حکومت کسانوں کی ہے یا نوکر شاہوں کی؟
وزیر زراعت دتاتریہ بھرنے بدھ کے روز جالنہ میں تھے اور اہم بات یہ ہے کہ انہیں بھی وزیر اعلیٰ اور نائب وزیر اعلیٰ کی طرح کسانوں کے سخت سوالات کا سامنا کرنا پڑا۔ ایک کسان نے ان سے سوال کیا کہ جب کبھی معاشی مشکلات آتی ہے تو اراکین اسمبلی تنخواہوں میں کوئی تخفیف نہیں کی جاتی تو پھر کسانوں کو دی جانے والی سبسیڈی میں تخفیف کیوں کی جاتی ہے؟ ایک کسان نے بھیگ کر خراب ہوچکی کپاس ہاتھ میں لے کر وزیر کو بتایا کہ ان کے گائوں میں سب کچھ تباہ ہو چکا ہے۔ کسانوں نے شکایت کی کہ حکومت مٹھی بھر امداد سے کسانوں کا منہ دھونے کی کوشش کر رہی ہے۔ اسے چاہئے کہ ریاست میں گیلا قحط کا اعلان کرے اور اس اعتبار سے امداد فراہم کرے۔ بینکوں نے کاشتکاری کی جو زمین اپنی تحویل میں لےرکھی ہے اسے ریلیز کرے۔ کسانوں کا غصہ دیکھ کر وزیر زراعت نے یقین دہانی کروائی کہ دیوالی آتے ہی کسانوںکے اکائونٹ میں پیسے آنے شروع ہو جائیں گے۔ یاد رہے کہ بدھ کے روز نائب وزیر اعلیٰ اجیت پوار نے بھی شولاپور کے کچھ علاقوںکا دورہ کیا اور مقامی باشندوںکا حال معلوم کرنے کی کوشش کی لیکن ایسی کوئی اطلاع نہیں ملی کہ انہیں مخالفت کا سامنا کرنا پڑا ہو۔