• Thu, 13 November, 2025
  • EPAPER

Inquilab Logo Happiest Places to Work

بابری مسجدکی تعمیر بے حرمتی کا ابتدائی عمل تھا: ڈی وائی چندرچڈ کے بیان پرغم وغصہ

Updated: September 25, 2025, 4:03 PM IST | New Delhi

سابق چیف جسٹس ڈی وائی چندرچڈنے ایک انٹرویو میں کہا کہ بابری مسجد کی تعمیر بذاتِ خود رام جنم بھومی کی بے حرمتی تھی، جس پر نیا تنازع کھڑا ہوگیا۔ ان کے اس بیان نے ایودھیا فیصلے، گیانواپی مقدمے اور عدلیہ کی غیر جانب داری پر ایک بار پھر بحث چھیڑ دی ہے۔

Former CJI DY Chandrachud. Photo: INN
سابق سی جے آئی ڈی وائی چندر چڈ۔ تصویر: آئی این این

سابق چیف جسٹس آف انڈیا ڈی وائی چندرچڈ نے ایک بار پھر تنازع کھڑا کردیا ہے۔ انہوں نے نیوز لانڈری کیلئے سری نواسن جین کو دیئے گئے انٹرویو میں کہا کہ بابری مسجد کی تعمیر بذاتِ خود ’’مذہبی بے حرمتی کا بنیادی عمل‘‘ تھی۔ اس گفتگو میں انہوں نے ایودھیا فیصلے، گیان واپی مسجد سروے اور مشکل مقدمات میں ’’بھگوان کی رہنمائی‘‘ پر انحصار جیسے حساس موضوعات پر روشنی ڈالی۔ انہوں نے کہا:’’۱۵۲۸ء میں بابری مسجد کی تعمیر بذاتِ خود ہندوؤں کے عقیدے کے مطابق رام جنم بھومی کی بے حرمتی تھی۔ ‘‘یہ ریمارک ۲۰۱۹ ءکے اس تاریخی ایودھیا فیصلے کی ایک اہم مشاہدے کی بازگشت تھا جس نے بابری مسجد کے انہدام شدہ مقام پر رام مندر کی تعمیر کا راستہ ہموار کیا۔ یہ فیصلہ ہندوستانی عدالتی تاریخ کے سب سے زیادہ زیرِ بحث فیصلوں میں شمار ہوتا ہے۔ 
 چندرچڈ، جو اُس وقت کے چیف جسٹس رنجن گوگوئی کی سربراہی والی پانچ رکنی بینچ کا حصہ تھے، سے یہ سوال بھی کیا گیا کہ کیا فیصلہ ایمان پر زیادہ جھکا ہوا تھا یا حقائق پر؟ انہوں نے ناقدین پر ’’تاریخ کے انتخابی مطالعے‘‘ کا الزام لگایا۔ ان کے مطابق:’’بہت سے لوگ بغیر ایک صفحہ پڑھے ہی فیصلے پر بات کرتے ہیں۔ ہمارے ۱۰۴۵ ؍صفحات پر مشتمل فیصلے میں شواہد کی تفصیلی وضاحت موجود ہے۔ ہم نے ماہرینِ آثار قدیمہ کی رپورٹیں، تاریخی کتابیں، ۱۹؍ویں صدی کے سیاحوں کے بیانات اور ریونیو ریکارڈ کا جائزہ لیا۔ اصل نتیجہ یہ تھا کہ مسجد کے نیچے ایک قدیم ہندو مندر کے آثار موجود تھے۔ یہ عقیدے کی نہیں بلکہ پیش کردہ شواہد کی بنیاد پر تھا۔ ‘‘انہوں نے زور دے کر کہا کہ ۷۷ء۲؍ ایکڑ متنازع زمین ہندو فریقین کو دینے کا فیصلہ ملکیت کے دعووں کی بنیاد پر تھا، نہ کہ ’’مذہبی جذبات‘‘ پر۔ ساتھ ہی یہ بھی واضح کیا کہ عدالت نے مسجد کیلئے پانچ ایکڑ متبادل زمین دینے کی ہدایت بھی دی تاکہ توازن قائم رہے۔ تاہم، ناقدین، جن میں سابق جج جسٹس روہنگٹن فالی نریمن بھی شامل ہیں، کا کہنا ہے کہ اس فیصلے نے ہندو دعووں کو فوقیت دے کر ہندوستان کے سیکولر ڈھانچے کو نقصان پہنچایا۔ 

چندرچڈ نے اس اعتراض کو رد کرتے ہوئے کہا:’’ہندوستان میں سیکولرازم کا مطلب لادینیت نہیں بلکہ سب مذاہب کی برابری ہے۔ آئین ہم سے لامذہب ہونے کا مطالبہ نہیں کرتا بلکہ غیر جانب دار ہونے کا تقاضا کرتا ہے۔ ‘‘ جب ان کے اس بیان پر کہ ’’کچھ جج ریٹائرمنٹ کے بعد سماجی مصلح یا کارکن بن جاتے ہیں ‘‘ ردعمل مانگا گیا تو جسٹس ایس مرلی دھر نے کہا:’’میں اسے تعریفی کلمات کے طور پر لیتا ہوں۔ انہیں بخوبی علم ہے کہ جج بننے سے پہلے بھی میں کئی سماجی مقدمات اور پی آئی ایل سے وابستہ رہا ہوں۔ ‘‘گفتگو میں ۲۰۲۳ ءکے سپریم کورٹ کے اس حکم پر بھی بات ہوئی جس میں گیانواپی مسجد کا ویڈیو سروے کرانے کی اجازت دی گئی تھی۔ یہ فیصلہ چندرچڈ نے بطور چیف جسٹس لکھا تھا، حالانکہ ۱۹۹۱ء کا پلیسز آف ورشپ ایکٹ واضح کرتا ہے کہ ۱۵ ؍اگست ۱۹۴۷ ءکو جو مذہبی حیثیت تھی وہی برقرار رہے گی۔ اس فیصلے نے ایک نیا پنڈورا بکس کھول دیا، اور اب ۱۰۰ ؍سے زائد مقامات پر مقدمات درج ہو چکے ہیں۔ 

ایڈووکیٹ آشیش گوئل نے کہا:’’ہر انٹرویو کے ساتھ چندرچڈاپنے خوابوں کی نوکری کے قریب پہنچ رہے ہیں۔ انہوں نے جج کے طور پر اپنی دیانت کو سمجھوتے پر لگا دیا، اب دیکھنا یہ ہے کہ بدلے میں انہیں کیا ملتا ہے۔ ‘‘ ایڈووکیٹ پرشانت بھوشن نے بھی سخت تنقید کی اور کہا:’’یہ انٹرویو سلسلہ ان کی فرقہ وارانہ ذہنیت کو بے نقاب کرتا ہے۔ ۵۰۰؍ سال پرانے کسی مندر کے انہدام کا کوئی ثبوت نہیں، پھر بھی وہ مسجد کی زمین انہدام کرنے والوں کو دینے کو درست ٹھہراتے ہیں۔ ‘‘مصنفہ سچترا وجیان نے کہا کہ جو لوگ ان کے فیصلوں یا عدالتی کریئر کو قریب سے دیکھتے ہیں، ان کیلئے یہ حیران کن نہیں ہے۔ ان کے مطابق ہندوستان میں جو ’’ترقی پسندی‘‘ کہلاتی ہے وہ اکثر محض زبان کی بازی گری ہے۔ انہوں نے کہا:’’چندرچڈ صرف سنگھ سے قریب نہیں بلکہ بے پناہ سیاسی عزائم رکھنے والے شخص ہیں۔ جب ہندوستان کی آئینی تباہی کی تاریخ لکھی جائے گی تو باپ اور بیٹے دونوں کے نام نمایاں اور پریشان کن ابواب میں ہوں گے۔ ‘‘

صحافی وقار حسن نے کہا:’’چندرچڈ اس بات کی مثال ہیں کہ ہندوستان کے لبرلز بنیادی طور پر ہندوتوا کے خلاف نہیں بلکہ خاموش حمایتی ہیں۔ ‘‘سوشل میڈیا صارف موہن کرشنن نے نشاندہی کی:’’فیصلے میں صاف لکھا ہے کہ رپورٹ یہ نہیں بتاتی کہ پرانی عمارت مسجد کی تعمیر کیلئےمنہدم کی گئی تھی۔ تو اب چندرچڈ بے حرمتی کی بات کیوں کر رہے ہیں ؟‘‘ صحافی مقصود نے بھی کہا:’’چندرچڈ اپنے ہی فیصلے کی تردید کر رہے ہیں جس میں کہا گیا تھا کہ اے ایس آئی یہ طے نہ کر سکی کہ پرانی عمارت کا مذہبی نوعیت کیا تھی یا کیوں گرائی گئی۔ ‘‘ان کے ’’بھگوان کی رہنمائی‘‘ والے بیان پر بھی سخت ردعمل سامنے آیا۔ دی وائر کے سدھارتھ وردراجن نے کہا: ’’چندرچڈ کو اپنے ناقص فیصلے کا الزام بھگوان پر نہیں ڈالنا چاہئے۔ ‘‘

ناقدین نے اسے عدلیہ کا مذاق قرار دیا اور کہا کہ اصل فیصلہ عوامی دباؤ سے متاثر ہوا۔ انٹرویو میں ان کی بطور چیف جسٹس دیگر چیلنجز جیسے ہم جنس شادی کی عرضیاں اور الیکٹورل بانڈز میں شفافیت پر بھی بات ہوئی۔ انہوں نے کہا: ’’ہم تقسیم کے دور میں جی رہے ہیں۔ جج انسان ہیں، غلطیاں کرتے ہیں لیکن ادارہ جاتی دیانت برقرار رکھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ‘‘۲۰۱۶ ءمیں سپریم کورٹ میں شمولیت کے بعد چندرچڈ کو ایک ’’لبرل جج‘‘ کے طور پر دیکھا جاتا رہا اور انہوں نے کئی تاریخی فیصلے دیئے جنہیں ترقی پسند قرار دیا گیا۔ لیکن چیف جسٹس کے طور پر ان کی سربراہی میں بنچوں اور مقدمات کی تقسیم کو اکثر حکمراں جماعت کے حق میں سمجھا گیا۔ ان کی عوامی مہم جوئی بھی بعض مبصرین کے مطابق حکمراں سیاست کے قریب سمجھی جاتی ہے۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK