سابق چیف جسٹس ڈی وائی چندرچڈنے ایک انٹرویو میں کہا کہ بابری مسجد کی تعمیر بذاتِ خود رام جنم بھومی کی بے حرمتی تھی، جس پر نیا تنازع کھڑا ہوگیا۔ ان کے اس بیان نے ایودھیا فیصلے، گیانواپی مقدمے اور عدلیہ کی غیر جانب داری پر ایک بار پھر بحث چھیڑ دی ہے۔
EPAPER
Updated: September 25, 2025, 4:03 PM IST | New Delhi
سابق چیف جسٹس ڈی وائی چندرچڈنے ایک انٹرویو میں کہا کہ بابری مسجد کی تعمیر بذاتِ خود رام جنم بھومی کی بے حرمتی تھی، جس پر نیا تنازع کھڑا ہوگیا۔ ان کے اس بیان نے ایودھیا فیصلے، گیانواپی مقدمے اور عدلیہ کی غیر جانب داری پر ایک بار پھر بحث چھیڑ دی ہے۔
سابق چیف جسٹس آف انڈیا ڈی وائی چندرچڈ نے ایک بار پھر تنازع کھڑا کردیا ہے۔ انہوں نے نیوز لانڈری کیلئے سری نواسن جین کو دیئے گئے انٹرویو میں کہا کہ بابری مسجد کی تعمیر بذاتِ خود ’’مذہبی بے حرمتی کا بنیادی عمل‘‘ تھی۔ اس گفتگو میں انہوں نے ایودھیا فیصلے، گیان واپی مسجد سروے اور مشکل مقدمات میں ’’بھگوان کی رہنمائی‘‘ پر انحصار جیسے حساس موضوعات پر روشنی ڈالی۔ انہوں نے کہا:’’۱۵۲۸ء میں بابری مسجد کی تعمیر بذاتِ خود ہندوؤں کے عقیدے کے مطابق رام جنم بھومی کی بے حرمتی تھی۔ ‘‘یہ ریمارک ۲۰۱۹ ءکے اس تاریخی ایودھیا فیصلے کی ایک اہم مشاہدے کی بازگشت تھا جس نے بابری مسجد کے انہدام شدہ مقام پر رام مندر کی تعمیر کا راستہ ہموار کیا۔ یہ فیصلہ ہندوستانی عدالتی تاریخ کے سب سے زیادہ زیرِ بحث فیصلوں میں شمار ہوتا ہے۔
چندرچڈ، جو اُس وقت کے چیف جسٹس رنجن گوگوئی کی سربراہی والی پانچ رکنی بینچ کا حصہ تھے، سے یہ سوال بھی کیا گیا کہ کیا فیصلہ ایمان پر زیادہ جھکا ہوا تھا یا حقائق پر؟ انہوں نے ناقدین پر ’’تاریخ کے انتخابی مطالعے‘‘ کا الزام لگایا۔ ان کے مطابق:’’بہت سے لوگ بغیر ایک صفحہ پڑھے ہی فیصلے پر بات کرتے ہیں۔ ہمارے ۱۰۴۵ ؍صفحات پر مشتمل فیصلے میں شواہد کی تفصیلی وضاحت موجود ہے۔ ہم نے ماہرینِ آثار قدیمہ کی رپورٹیں، تاریخی کتابیں، ۱۹؍ویں صدی کے سیاحوں کے بیانات اور ریونیو ریکارڈ کا جائزہ لیا۔ اصل نتیجہ یہ تھا کہ مسجد کے نیچے ایک قدیم ہندو مندر کے آثار موجود تھے۔ یہ عقیدے کی نہیں بلکہ پیش کردہ شواہد کی بنیاد پر تھا۔ ‘‘انہوں نے زور دے کر کہا کہ ۷۷ء۲؍ ایکڑ متنازع زمین ہندو فریقین کو دینے کا فیصلہ ملکیت کے دعووں کی بنیاد پر تھا، نہ کہ ’’مذہبی جذبات‘‘ پر۔ ساتھ ہی یہ بھی واضح کیا کہ عدالت نے مسجد کیلئے پانچ ایکڑ متبادل زمین دینے کی ہدایت بھی دی تاکہ توازن قائم رہے۔ تاہم، ناقدین، جن میں سابق جج جسٹس روہنگٹن فالی نریمن بھی شامل ہیں، کا کہنا ہے کہ اس فیصلے نے ہندو دعووں کو فوقیت دے کر ہندوستان کے سیکولر ڈھانچے کو نقصان پہنچایا۔
The "very erection" of Babri mosque was the "fundamental act of desecration", DY Chandrachud tells me.
— Sreenivasan Jain (@SreenivasanJain) September 24, 2025
A startling statement -- all the more given the verdict he co-authored clearly says no evidence was supplied to show if the earlier structure was demolished to build a… pic.twitter.com/wyEj7UMgqq
چندرچڈ نے اس اعتراض کو رد کرتے ہوئے کہا:’’ہندوستان میں سیکولرازم کا مطلب لادینیت نہیں بلکہ سب مذاہب کی برابری ہے۔ آئین ہم سے لامذہب ہونے کا مطالبہ نہیں کرتا بلکہ غیر جانب دار ہونے کا تقاضا کرتا ہے۔ ‘‘ جب ان کے اس بیان پر کہ ’’کچھ جج ریٹائرمنٹ کے بعد سماجی مصلح یا کارکن بن جاتے ہیں ‘‘ ردعمل مانگا گیا تو جسٹس ایس مرلی دھر نے کہا:’’میں اسے تعریفی کلمات کے طور پر لیتا ہوں۔ انہیں بخوبی علم ہے کہ جج بننے سے پہلے بھی میں کئی سماجی مقدمات اور پی آئی ایل سے وابستہ رہا ہوں۔ ‘‘گفتگو میں ۲۰۲۳ ءکے سپریم کورٹ کے اس حکم پر بھی بات ہوئی جس میں گیانواپی مسجد کا ویڈیو سروے کرانے کی اجازت دی گئی تھی۔ یہ فیصلہ چندرچڈ نے بطور چیف جسٹس لکھا تھا، حالانکہ ۱۹۹۱ء کا پلیسز آف ورشپ ایکٹ واضح کرتا ہے کہ ۱۵ ؍اگست ۱۹۴۷ ءکو جو مذہبی حیثیت تھی وہی برقرار رہے گی۔ اس فیصلے نے ایک نیا پنڈورا بکس کھول دیا، اور اب ۱۰۰ ؍سے زائد مقامات پر مقدمات درج ہو چکے ہیں۔
With each media interview, DY Chandrachud is inching closer to his dream job. Nothing he says or does surprises me. There’s plenty of evidence to show he compromised his integrity as judge to align with executive. I’m just curious to find out what he gets in exchange for his soul
— Ashish Goel (@ashish_nujs) September 24, 2025
ایڈووکیٹ آشیش گوئل نے کہا:’’ہر انٹرویو کے ساتھ چندرچڈاپنے خوابوں کی نوکری کے قریب پہنچ رہے ہیں۔ انہوں نے جج کے طور پر اپنی دیانت کو سمجھوتے پر لگا دیا، اب دیکھنا یہ ہے کہ بدلے میں انہیں کیا ملتا ہے۔ ‘‘ ایڈووکیٹ پرشانت بھوشن نے بھی سخت تنقید کی اور کہا:’’یہ انٹرویو سلسلہ ان کی فرقہ وارانہ ذہنیت کو بے نقاب کرتا ہے۔ ۵۰۰؍ سال پرانے کسی مندر کے انہدام کا کوئی ثبوت نہیں، پھر بھی وہ مسجد کی زمین انہدام کرنے والوں کو دینے کو درست ٹھہراتے ہیں۔ ‘‘مصنفہ سچترا وجیان نے کہا کہ جو لوگ ان کے فیصلوں یا عدالتی کریئر کو قریب سے دیکھتے ہیں، ان کیلئے یہ حیران کن نہیں ہے۔ ان کے مطابق ہندوستان میں جو ’’ترقی پسندی‘‘ کہلاتی ہے وہ اکثر محض زبان کی بازی گری ہے۔ انہوں نے کہا:’’چندرچڈ صرف سنگھ سے قریب نہیں بلکہ بے پناہ سیاسی عزائم رکھنے والے شخص ہیں۔ جب ہندوستان کی آئینی تباہی کی تاریخ لکھی جائے گی تو باپ اور بیٹے دونوں کے نام نمایاں اور پریشان کن ابواب میں ہوں گے۔ ‘‘
Justice Chandrachud has been on an interview spree recently. In this interview with @SreenivasanJain he lays bare his communal mindset. Says destruction of Temple 500 yrs ago (of which there was no evidence) is good reason to give the land to the destroyers of the mosque now!
— Prashant Bhushan (@pbhushan1) September 25, 2025
No… https://t.co/OsUsjoMMW4
صحافی وقار حسن نے کہا:’’چندرچڈ اس بات کی مثال ہیں کہ ہندوستان کے لبرلز بنیادی طور پر ہندوتوا کے خلاف نہیں بلکہ خاموش حمایتی ہیں۔ ‘‘سوشل میڈیا صارف موہن کرشنن نے نشاندہی کی:’’فیصلے میں صاف لکھا ہے کہ رپورٹ یہ نہیں بتاتی کہ پرانی عمارت مسجد کی تعمیر کیلئےمنہدم کی گئی تھی۔ تو اب چندرچڈ بے حرمتی کی بات کیوں کر رہے ہیں ؟‘‘ صحافی مقصود نے بھی کہا:’’چندرچڈ اپنے ہی فیصلے کی تردید کر رہے ہیں جس میں کہا گیا تھا کہ اے ایس آئی یہ طے نہ کر سکی کہ پرانی عمارت کا مذہبی نوعیت کیا تھی یا کیوں گرائی گئی۔ ‘‘ان کے ’’بھگوان کی رہنمائی‘‘ والے بیان پر بھی سخت ردعمل سامنے آیا۔ دی وائر کے سدھارتھ وردراجن نے کہا: ’’چندرچڈ کو اپنے ناقص فیصلے کا الزام بھگوان پر نہیں ڈالنا چاہئے۔ ‘‘
This should surprise no one who has actually read The Judgment, or who has followed Chandrachud’s long career on the bench. In India, what so often passes for progressiveness is really just a liberal-linguistic performance: the right words strung together, and regular… https://t.co/9wSO87UuwP
— Suchitra Vijayan 🇵🇸 (@suchitrav) September 24, 2025
ناقدین نے اسے عدلیہ کا مذاق قرار دیا اور کہا کہ اصل فیصلہ عوامی دباؤ سے متاثر ہوا۔ انٹرویو میں ان کی بطور چیف جسٹس دیگر چیلنجز جیسے ہم جنس شادی کی عرضیاں اور الیکٹورل بانڈز میں شفافیت پر بھی بات ہوئی۔ انہوں نے کہا: ’’ہم تقسیم کے دور میں جی رہے ہیں۔ جج انسان ہیں، غلطیاں کرتے ہیں لیکن ادارہ جاتی دیانت برقرار رکھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ‘‘۲۰۱۶ ءمیں سپریم کورٹ میں شمولیت کے بعد چندرچڈ کو ایک ’’لبرل جج‘‘ کے طور پر دیکھا جاتا رہا اور انہوں نے کئی تاریخی فیصلے دیئے جنہیں ترقی پسند قرار دیا گیا۔ لیکن چیف جسٹس کے طور پر ان کی سربراہی میں بنچوں اور مقدمات کی تقسیم کو اکثر حکمراں جماعت کے حق میں سمجھا گیا۔ ان کی عوامی مہم جوئی بھی بعض مبصرین کے مطابق حکمراں سیاست کے قریب سمجھی جاتی ہے۔