فرانسیسی قانون ساز کیتھالا نے امدادی مشن کے حوالے سے اپنے ملک کی حکومت کے موقف پر تنقید کی اور حکام کو بین الاقوامی قانون کے تحت ان کی ذمہ داریوں کی یاد دہانی کرائی۔
EPAPER
Updated: July 22, 2025, 4:09 PM IST | Gaza/Paris
فرانسیسی قانون ساز کیتھالا نے امدادی مشن کے حوالے سے اپنے ملک کی حکومت کے موقف پر تنقید کی اور حکام کو بین الاقوامی قانون کے تحت ان کی ذمہ داریوں کی یاد دہانی کرائی۔
محصور فلسطینی علاقے غزہ کی ابادی کیلئے انسانی امداد لے کر جا رہے بحری جہاز ’حنظلہ‘ پر سوار فرانس کی ’فرانس اَن باؤڈ‘ (ایل ایف آئی) پارٹی کی قانون ساز، گیبریئل کیتھالا نے امدادی مشن کے حوالے سے فرانسیسی حکومت کے موقف پر تنقید کی اور حکام کو بین الاقوامی قانون کے تحت ان کی ذمہ داریوں کی یاد دہانی کرائی۔ کیتھالا نے فرانس کے نائب وزیر خارجہ جین-نوئل بیروٹ کی پوسٹ کا سخت جواب دیا جنہوں نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پر لکھا تھا: ”سفری ہدایات، ممبران پارلیمنٹ سمیت سب پر لاگو ہوتی ہیں۔ یہ مشن ’خطرناک‘ ہے۔ ہم اس کی سخت حوصلہ شکنی کرتے ہیں۔ یہ مشن وہاں (غزہ میں) جاری انسانی تباہی کو حل کرنے میں کسی بھی طرح سے حصہ نہیں ڈال سکتا۔“ بیروٹ نے مزید کہا کہ سفارتی عملہ ’ہمیشہ کی طرح، اس غیر ذمہ دارانہ اقدام کے نتائج کو بہترین طریقے سے سنبھالنے کیلئے اپنی قونصلر ذمہ داری پوری کرے گا۔‘
کیتھالا نے اس پوسٹ پر سخت ردعمل دیتے ہوئے لکھا کہ ”یہ (موقف) انسانی امداد کی فضائی راہداری قائم کرنے کیلئے کچھ نہ کرنا اور ہمارے ملک کو ایک نسل کشی میں ملوث کرنا ہے جو غیر ذمہ دارانہ، غیر اخلاقی اور ناقابل قبول ہے۔“ فرانسیسی قانون ساز نے مزید کہا کہ ”میکرون حکومت کے وزراء سمیت سبھی پر بین الاقوامی قانون لاگو ہوتا ہے۔“ کیتھالا نے اس بات کی تصدیق کی کہ ۶ فرانسیسی شہری جہاز پر سوار ہیں۔
’حنظلہ‘ کا مقصد اور اسرائیل کی جارحیت
فریڈم فلوٹیلا کولیشن (ایف ایف سی) کا بحری جہاز ’حنظلہ‘، جو ۱۹۶۸ء کے نارویجن فشنگ ٹرالر کو تبدیل کرکے بنایا گیا ہے، غزہ میں فلسطینی بچوں کیلئے طبی سامان، خوراک اور امدادی سازوسامان لے جا رہا ہے۔ اس پر تقریباً ۲۰ بین الاقوامی شخصیات پر مشتمل عملہ سوار ہیں جن میں یورپی قانون ساز، انسانی حقوق کے کارکن اور صحافی شامل ہیں۔ یہ مشن، ایف ایف سی کی ایک اور کشتی ”میڈیلین“ پر اسرائیل کے غیر قانونی حملے کے چند ہفتوں بعد سامنے آیا ہے جسے گزشتہ ماہ اسرائیل نے بین الاقوامی پانیوں میں پرتشدد طریقے سے اپنے قبضے میں لے لیا گیا تھا اور اس پر سوار ۱۲ کارکنوں کو حراست میں لے لیا تھا جن میں فرانسیسی یورپی رکن پارلیمنٹ ریما حسن اور سویڈن کی ماحولیاتی کارکن گریٹا تھنبرگ بھی شامل تھیں۔
یہ بھی پڑھئے: غزہ جنگ: جاں بحق ہونے والے فلسطینیوں کی تعداد ۵۹؍ ہزار سے متجاوز
غزہ کی صورتحال سنگین
غزہ میں اکتوبر ۲۰۲۳ء سے جاری فلسطینیوں کی نسل کشی پر مبنی اسرائیلی جنگی کارروائیوں میں اب تک تقریباً ۵۹ ہزار سے زائد فلسطینی ہلاک ہو چکے ہیں، جن میں بیشتر خواتین اور بچے ہیں۔ فلسطین کی وفا نیوز ایجنسی کے مطابق، تقریباً ۱۱ ہزار فلسطینی تباہ شدہ گھروں کے ملبے تلے دبے ہوئے ہیں۔ ماہرین کا خیال ہے کہ اموات کی اصل تعداد کہیں زیادہ ہو سکتی ہے اور ممکنہ طور پر ۲ لاکھ سے تجاوز کر سکتی ہے۔ اس نسل کشی کے دوران، اسرائیل نے محصور علاقے کے بیشتر حصے کو کھنڈرات میں تبدیل کر دیا ہے اور اس کی تمام آبادی کو بے گھر کر دیا ہے۔
یہ بھی پڑھئے: امدادی مراکز پر جاں بحق ہونے والے فلسطینی بچوں کے والدین غم سے نڈھال
اسرائیلی قابض افواج کی مسلسل بمباری کے باعث غزہ پٹی میں خوراک کی شدید قلت اور بیماریوں کے پھیلاؤ میں اضافہ ہوا ہے۔ گزشتہ نومبر میں، بین الاقوامی فوجداری عدالت نے اسرائیلی وزیراعظم بنجامن نیتن یاہو اور سابق وزیر دفاع یوو گیلنٹ کے خلاف غزہ میں جنگی جرائم اور انسانیت کے خلاف جرائم کے الزام میں گرفتاری کے وارنٹ جاری کئے تھے۔ اسرائیل اپنی جنگ کیلئے بین الاقوامی عدالت انصاف میں نسل کشی کے مقدمہ کا بھی سامنا کررہا ہے۔