• Mon, 13 October, 2025
  • EPAPER

Inquilab Logo Happiest Places to Work

بارک اوبامہ غزہ جنگ بندی پر یک طرفہ پوسٹ کے باعث سوشل میڈیا پر تنقید کا نشانہ

Updated: October 12, 2025, 7:02 PM IST | Washington

سابق امریکی صدر بارک اوبامہ غزہ جنگ بندی پر اپنی یک طرفہ پوسٹ کے سبب سوشل میڈیا پر تنقید کا نشانہ بنے، اپنی پوسٹ میں انہوں نے اسرائیل کیلئے ہمدردی کا اظہار تو کیا، جبکہ فلسطینی عوام کی نسل کشی اور ان کی تکالیف کا تذکرہ نہیں کیا۔

Former US President Barack Obama. Photo: INN
سابق امریکی صدر بارک اوباما۔ تصویر: آئی این این

سابق امریکی صدر بارک اوباما نے اسرائیل اور غزہ کے درمیان جنگ بندی کے حوالے سے ایک بیان جاری کیا ہے جس پر انہیں سوشل میڈیا پر سخت تنقید کا سامنا کرنا پڑ رہاہے۔ تنقید کا مرکز ان کے اس بیان میں استعمال ہونے والی زبان ہے جسے مبینہ طور پر یک طرفہ اور فلسطینیوں کی انسانی حیثیت کو مجروح کرنے والا قرار دیا جا رہا ہے۔اوباما کے بیان کا تجزیہ کیا گیا جس میں ’’اسرائیلی خاندان‘‘ بمقابلہ ’’غزہ کے لوگ‘‘کے الفاظاستعمال کئے، جس میں اسرائیلیوں کو انفرادی اور جذباتی شناخت ’’خاندان‘‘ دے کر انہیں زیادہ انسانی بنانا، جبکہ فلسطینیوں کو ایک اجتماعی اور بے نام ہجوم’’ لوگ‘‘کے طور پر پیش کرنا۔ واقعات کی تعبیر میں’’تنازعہ‘‘کا لفظ استعمال کرنےسے یہ لفظ دونوں فریقوں کو برابری کی سطح پر لا کر کھڑا کرتا ہے، جبکہ حقیقت میں طاقت کا توازن یک طرفہ ہے اور اسرائیلی کارروائیوں کو ’’نسل کشی‘‘کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔ اس کے علاوہ ذمہ داری کا تصور ’’غزہ کی تعمیر نو کا مشکل کام‘‘ دونوں فریقوں کی مشترکہ ذمہ داری قرار دینا اس بیانیے سے اسرائیلی جارحیت کے نتیجے میں ہونے والی تباہی کی ذمہ داری کو دونوں طرف برابر بانٹا گیا ہے، جبکہ اسے ایک ’’محاصرے اور قبضے‘‘کے نتیجے کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔ سابق صدر بارک اوباما نے اپنے بیان میںکہا کہ ’’اسرائیلی خاندانوں اور غزہ کے لوگوں کے دو سال کے ناقابلِ تصور نقصان اور تکلیف کے بعد، ہم سب کو حوصلہ ملا ہے اور یہ جان کر راحت ہے کہ تنازعے کا خاتمہ قریب ہے۔‘‘

یہ بھی پڑھئے: غزہ:۲؍سال میں پہلی رات دھماکوں کے بغیر گزری

واضح رہے کہ یہ پہلا موقع نہیں ہے جب اوباما نے اس تصادم پر تبصرہ کیا ہے۔ ماضی میں، انہوں نے اسرائیل کو ’’حماس کے خلاف اپنے دفاع کے حق‘‘ کی حمایت کا اعلان کرتے ہوئے یہ بھی کہا تھا کہ فلسطینیوں کے مصائب کو نظر انداز نہیں کیا جانا چاہیے۔ تاہم، ستمبر۲۰۲۵ء میں انہوںنے اسرائیلی فوجی کارروائی پر ’’کوئی فوجی دلیل نہیں‘‘ہونے کا اعتراض بھی کیا تھا، جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ان کے موقف کے مختلف پہلو ہیں۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK