ٹرمپ نے ایک بیان میں کہا کہ غزہ سے کسی کو زبردستی نہیں نکالا جائے گا،انہوں نے کہا کہ جنگ بندی کا معاہدہ ’’مکمل ہو چکا ہے‘‘ اور وہ اس حوالے سے اس ہفتے کے آخر میں مشرق وسطیٰ کا دورہ کریں گے۔
EPAPER
Updated: October 10, 2025, 9:34 PM IST | Washington
ٹرمپ نے ایک بیان میں کہا کہ غزہ سے کسی کو زبردستی نہیں نکالا جائے گا،انہوں نے کہا کہ جنگ بندی کا معاہدہ ’’مکمل ہو چکا ہے‘‘ اور وہ اس حوالے سے اس ہفتے کے آخر میں مشرق وسطیٰ کا دورہ کریں گے۔
امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ نے اس بات پر زور دیا ہے کہ غزہ سے کسی کو زبردستی نہیں نکالا جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ جنگ بندی کا معاہدہ مکمل ہو چکا ہے اور وہ اس حوالے سے اس ہفتے کے آخر میں مشرق وسطیٰ کا دورہ کریں گے۔ انہوں نے یہ بھی توقع ظاہر کی کہ یرغمالی پیر یا منگل کو رہا ہو جائیں گے۔ اس معاہدے کا مقصد جنگ زدہ غزہ پٹی میں فوری اور مستقل جنگ بندی قائم کرنا ہے ۔ ٹرمپ سے جب ایک صحافی نے سوال کیا کہ کیا اس معاہدے کے تحت فلسطینیوں کو غزہ سے نکالا جائے گا، جس کے جواب میں انہوں نے کہا کہ ’’کسی کو زبردستی نہیں نکالا جائے گا۔ بلکہ اس کے برعکس ہے، ہم ایسا بالکل نہیں کرنا چاہتے۔‘‘
یہ بھی پڑھئے: مڈغاسکر میں تقریباً ایک ہزار مظاہرین کا صدر سے استعفیٰ دینے کا مطالبہ
اپنے اوول دفتر میں ٹرمپ نے صحافیوں سے کہاکہ معاہدہ مکمل ہو چکا ہے، اور وہ آئندہ ہفتے مشرق وسطیٰ کا دورہ کریں گے، اور اتوار کو کسی وقت وہ روانہ ہوں گے۔ غزہ میں امن کے استحکام کیلئے فوج کی تعیناتی کے سوال پر ٹرمپ نے کہا کہ ابھی اس تعلق سے گفتگو جاری ہے، کوئی حتمی فیصلہ نہیں کیا گیا ہے۔ یرغمالیوں کی رہائی کے تعلق سے انہوں نے بتایا کہ تمام زندہ یرغمالوں کو۷۲؍ گھنٹے کے اندر رہا کرنے پر اتفاق ہوا ہے ۔اس معاہدے پر عمل درآمد کرتے ہوئے اسرائیلی فوجوں نے پہلے مرحلے کے طور پر غزہ کے کچھ حصوں سے انخلا شروع کر دیا ہے ۔واضح رہے کہ ٹرمپ کے ۲۰؍ نکاتی امن منصوبے کے مطابق اسرائیل۲۵۰؍ عمر قید کے قیدیوں سمیت۲۰۰۰؍ فلسطینی قیدیوں کو رہا کرے گا ۔
یہ معاہدہ جنگ کو ختم کرنے اور مستقل جنگ بندی قائم کرنے کے لیے ایک جامع منصوبے کا پہلا مرحلہ ہے ۔ گرچہ یہ معاہدہ ایک اہم پیشرفت ہے، لیکن کئی پیچیدہ پہلو ابھی تک حل طلب ہیں۔دوسرے مرحلے میں حماس کی شرکت کے بغیر غزہ کے لیے ایک نئی حکومتی ساخت قائم کرنا شامل ہے، جس پر عمل درآمد مشکل ثابت ہو سکتا ہے ۔
یہ بھی پڑھئے: حماس کے سینئر لیڈر نےغزہ امن معاہدے کی شقوں کی تفصیل پیش کی
معاہدے کا ایک بنیادی مطالبہ حماس کی غیر مسلح سازی ہے، لیکن حماس نے ابھی تک اس بات کا واضح اشارہ نہیں دیا ہے ۔اس کے علاوہ عرب اور اسلامی ممالک کی امداد اور فوج کی مدد سے غزہ کی تعمیر نواور نئی حکومت کی تشکیل کی جائے گی۔ غزہ میں تعینات ہونے والے بین الاقوامی استحکامی دستے کی نوعیت اور ساخت ابھی طے نہیں ہے ۔
دریں اثناء عرب اور مسلم ممالک نے اس معاہدے کا خیرمقدم کیا ہے، لیکن کئی حکام کے مطابق کچھ نکات تفصیل طلب ہیں،اور اس معاہدے پر مکمل طور پر عمل آوری کے تعلق سے اب بھی کچھ گفت و شنید کی ضرورت ہے۔