Updated: October 10, 2025, 10:12 PM IST
| Gaza
انادولو نیوز ایجنسی کو حاصل ہونے والی ایک خفیہ دستاویز کے مطابق، اسرائیل، حماس اور بین الاقوامی ثالثوں کے درمیان مصر میں طے پانے والے معاہدے کو ’’غزہ جنگ کا جامع خاتمہ‘‘ قرار دیا گیا ہے۔ معاہدے میں اگلے ۷۲؍ گھنٹوں کے اندر کئے جانے والے اقدامات کی تفصیلات شامل ہیں، جن میں فوجی آپریشنز کی معطلی، انسانی امداد کا آغاز، اسرائیلی افواج کا انخلا، اور قیدیوں کے تبادلے کا منصوبہ شامل ہے۔
فلسطینی اپنے شہر لوٹتے ہوئے۔ تصویر: ایکس
اسرائیلی حکومت نے غزہ میں جنگ کے خاتمے اور حماس کے ساتھ قیدیوں کے تبادلے کے معاہدے کی منظوری دے دی ہے۔ یہ فیصلہ جمعرات کو حماس کے لیڈر خلیل الحیہ کی جانب سے منظوری کے اعلان کے بعد، جمعہ کی صبح اسرائیلی وزیرِاعظم کے دفتر کی جانب سے جاری بیان میں کیا گیا۔ اسرائیلی میڈیا کے مطابق، کابینہ کے تمام وزراء نے معاہدے کے حق میں ووٹ دیا، سوائے پانچ کے — جن میں وزیرِ قومی سلامتی بن گویر اور وزیرِ خزانہ سموٹریچ شامل ہیں۔ معاہدے کے مطابق تمام فوجی کارروائیاں معطل کر دی جائیں گی، اور اسرائیل کی منظوری کے فوراً بعد جنگ بندی نافذ ہو گئی ہے۔
یہ بھی پڑھئے: حماس کے سینئر لیڈر نےغزہ امن معاہدے کی شقوں کی تفصیل پیش کی
انسانی امداد اور اسرائیلی انخلا
دستاویز میں کہا گیا ہے کہ انسانی امداد کی فراہمی فوری طور پر شروع کی جائے گی، جیسا کہ معاہدے میں طے کیا گیا ہے، اور یہ عمل ۱۹؍ جنوری ۲۰۲۶ء تک انسانی امداد سے متعلق فریم ورک کے تحت جاری رہے گا۔ مزید یہ کہ، معاہدے کے بعد اسرائیلی فوج یلو لائن سے پیچھے ہٹ جائے گی — یہ وہی لائن ہے جسے امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ نے ۴؍ اکتوبر کو شیئر کئے گئے ایک نقشے میں ظاہر کیا تھا۔ ابتدائی انخلا زون پیلے رنگ سے نشان زد کیا گیا ہے۔ دستاویز کے مطابق، جب تک حماس معاہدے پر مکمل عمل درآمد کرتا ہے، اسرائیل اِن علاقوں میں دوبارہ داخل نہیں ہوگا۔
یہ بھی پڑھئے: غزہ سے کسی کو زبردستی نہیں نکالا جائے گا: ڈونالڈ ٹرمپ
یرغمالوں اور قیدیوں کا تبادلہ
دستاویز کے مطابق، اسرائیلی افواج کے انخلا کے ۷۲؍ گھنٹے کے اندر غزہ میں قید تمام اسرائیلی یرغمالوں کو رہا کر دیا جائے گا۔ حماس اپنے پاس موجود اسرائیلی ہلاکتوں سے متعلق تمام معلومات ایک مشترکہ میکانزم کو فراہم کرے گا، جس میں قطر، مصر، ترکی اور ریڈ کراس کی بین الاقوامی کمیٹی شامل ہوں گی۔ اسی دوران، اسرائیل بھی اتنی ہی تعداد میں فلسطینی قیدیوں کو رہا کرے گا — تقریباً ۲؍ ہزار قیدی، جن میں اکثریت خواتین اور نوعمر افراد کی ہوگی۔ یہ تبادلہ غیر اعلانیہ طور پر اور میڈیا کوریج کے بغیر انجام دیا جائے گا۔ رپورٹس کے مطابق، اس وقت غزہ میں ۴۸؍ اسرائیلی قیدی ہیں جن میں سے ۲۰؍ زندہ ہیں، جبکہ ۱۱؍ ہزار ۱۰۰؍ سے زائد فلسطینی اسرائیلی جیلوں میں قید ہیں۔
عمل درآمد کیلئے ٹاسک فورس
معاہدے کے تحت ایک ٹاسک فورس تشکیل دی جائے گی، جس میں امریکہ، قطر، مصر، ترکی اور دیگر ممالک کے نمائندے شامل ہوں گے۔ یہ فورس معاہدے کے نفاذ کی نگرانی اور دونوں فریقوں کے درمیان رابطے کی ذمہ داری نبھائے گی۔