غزہ کے فائبر آپٹک پر متواتر اسرائیلی حملوں کے سبب غزہ پٹی میں مسلسل تیسرے دن بھی انٹرنیٹ بند رہا، اور پورے علاقے میں مواصلاتی بحران پیدا ہو گیا ہے۔ انسانی حقوق کی تنظیمیں اسے رابطے کو جان بوجھ کر اور منظم انداز میں مٹانے کی کوشش قرار دے رہے ہیں۔
EPAPER
Updated: June 13, 2025, 6:04 PM IST | Gaza
غزہ کے فائبر آپٹک پر متواتر اسرائیلی حملوں کے سبب غزہ پٹی میں مسلسل تیسرے دن بھی انٹرنیٹ بند رہا، اور پورے علاقے میں مواصلاتی بحران پیدا ہو گیا ہے۔ انسانی حقوق کی تنظیمیں اسے رابطے کو جان بوجھ کر اور منظم انداز میں مٹانے کی کوشش قرار دے رہے ہیں۔
غزہ پٹی میں مسلسل تیسرے دن بھی مکمل مواصلاتی بحران جاری ہے۔ ڈیجیٹل حقوق کی تنظیم ۷؍املہ (7amleh) نے جمعرات کے روز ایک بیان میں کہا ہے کہ انسانی حقوق کی تنظیمیں اسے رابطے کو جان بوجھ کر اور منظم انداز میں مٹانے کی کوشش قرار دے رہے ہیں۔ یہ بحران ۱۰؍ جون ۲۰۲۵ ءکو اس وقت شروع ہوا جب مبینہ طور پر اسرائیلی فوجی حملوں نے غزہ سٹی اور شمالی غزہ کو جوڑنے والے مرکزی فائبر آپٹک کو نشانہ بنایا، جس کے نتیجے میں شمالی اضلاع میں فوری طور پر انٹرنیٹ اور لینڈ لائن خدمات بند ہوگئیں۔فلسطینی ٹیلی کمیونیکیشن ریگولیٹری اتھارٹی (ٹی آر اے) کے مطابق، ۱۲ جون کو باقی ماندہ فائبر آپٹک راستے کو بھی نشانہ بنائے جانے کے بعد باقی ماندہ خدمات بھی معطل ہو گئیں۔ٹی آر اے کی رپورٹس کے مطابق غزہ کی ۱۰۰ فیصد انٹرنیٹ اور لینڈ لائن مواصلات اب منقطع ہیں۔ موبائل نیٹ ورکس بمشکل کام کر رہے ہیں اور شدید دباؤ، بنیادی ڈھانچے کی کمی، اور متبادل نظام کے فقدان کی وجہ سے ان کے بھی مکمل طور پر ڈھیر ہو جانے کا خدشہ ہے۔
ٹی آر اے کے ترجمان نے کہا’’یہ کوئی مقامی رکاوٹ یا تکنیکی خرابی نہیں ہے۔ یہ غزہ کے رابطے کے بنیادی ڈھانچے کی مکمل بربادی ہے۔‘‘غزہ میں مواصلاتیبحران پہلی بار نہیں آیا۔ اکتوبر ۲۰۲۳ء کے بعد سے کئی بڑےبحران آئے ہیں، جو اکثر فوجی کارروائیوں میں شدت کے ساتھ ہم آہنگ رہے ہیں۔ تاہم، جون ۲۰۲۵ء کا موجودہ بحران پہلا موقع ہے جب پوری پٹی میں ایک ساتھ تمام انٹرنیٹ، لینڈ لائن اور تقریباً تمام موبائل خدمات مکمل طور پر معطل ہیں۔اس بلیک آؤٹ کے شہریوں اور انسان دوست امدادی کارکنوں کے لیے تباہ کن نتائج نکل رہے ہیں۔ فلسطینی ریڈ کریسنٹ سوسائٹی (پی آر سی ایس) نے آجکہا کہ ’’ہمیں غزہ پٹی میں اپنی ٹیموں کے ساتھ رابطہ کرنے میں سنگین مشکل کا سامنا ہے کیونکہ مقبوضہ افواج کی جانب سے ٹیلی کمیونیکیشن لائنوں کو براہ راست نشانہ بنانے کے بعد انٹرنیٹ اور لینڈ لائن خدمات مکمل طور پر بند ہیں۔ ہمارا ایمرجنسی آپریشنز روم فوری انسانی امداد کے معاملات پر ردعمل ظاہر کرنے کیلئے دوسری تنظیموں کے ساتھ رابطے کیلئے جدوجہد کر رہا ہے۔‘‘
یہ بھی پڑھئے: اسرائیلی فوج نے غزہ کے ۹۰؍ فیصد اسکول تباہ کردیئے، ۶۵۸۰۰۰؍ بچے تعلیم سے محروم
ٹیلی کام فراہم کنندگان کا کہنا ہے کہ اسرائیلی افواج کی جانب سے جاری پابندیوں اور رسائی کی رکاوٹوں کی وجہ سے آلات کی کمی کے باعث وہ مرمت نہیں کر سکتے۔ غزہ کا ۷۸؍ فیصد سے زیادہ حصہ اب انخلا یا جنگ کا خطہ قرار دے دیا گیا ہے، جس کے باعث بین الاقوامی ہم آہنگی کے بغیر بنیادی ڈھانچے کی مرمت تقریباً ناممکن ہے، اور ایسی کوئی ہم آہنگی اب تک سامنے نہیں آئی۔۷املہ نے ایک اپیل میں کہای’’ہبلیک آؤٹ حادثاتی نہیں ہے۔ یہ جبری حکمت عملی ہے جو ۲۳ لاکھ لوگوں سے بات چیت کرنے، رپورٹ کرنے اور مدد کے لیے پکارنے کے ان کے بنیادی حق کو چھین رہی ہے۔ ہم بین الاقوامی انسانی اداروں اور ٹیلی کام ریگولیٹرز پر زور دیتے ہیں کہ وہ اسے ایک سنگین ہنگامی صورت حال کے طور پر تسلیم کریں۔‘‘انہوں نے مزید خبردار کیا کہ ڈیجیٹل رسائی کے فقدان کے باعث شہری اور صحافی غیر محفوظ اور دستاویزات سے محروم ہیں۔سرکاری چینلز کے فقدان کے سبب ، غزہ کی سرحدوں کے قریب ای سیم اور دیگر عارضی حل کی مانگ میں شدید اضافہ ہوا ہے۔ ان تک اکثر شدید ذاتی خطرات مول لے کر پہنچا جاتا ہے، یہ عمل باہر کی دنیا سے دوبارہ رابطہ قائم کرنے کی کوشش کرنے والوں کی بے چینی کی عکاسی کرتا ہے۔