کوئی آمدنی نہ ہونے اور تین بچوں کو کھلانے کی ذمہ داری کے ساتھ، غزہ کی ایک ماں نے اپنی شہید لڑکی کے کچھ کپڑے ایک کلو بینگن کے بدلے فروخت کردیئے۔
EPAPER
Updated: August 15, 2025, 9:59 PM IST | Gaza
کوئی آمدنی نہ ہونے اور تین بچوں کو کھلانے کی ذمہ داری کے ساتھ، غزہ کی ایک ماں نے اپنی شہید لڑکی کے کچھ کپڑے ایک کلو بینگن کے بدلے فروخت کردیئے۔
غزہ میں اسرائیلی فوج کی وحشیانہ جنگی کارروائیوں، قحط اور بھکمری کے درمیاں سنگین انسانی بحران نے فلسطینی خاندانوں کو ایسے فیصلے کرنے پر مجبور کر دیا ہے جن کے بارے میں سوچا بھی نہیں جا سکتا۔ جنوبی غزہ میں ایک پھٹے ہوئے خیمے میں رہنے والی خاتون صفاء الفرماوی نے اپنے زندہ بچوں کیلئے روٹی خریدنے کیلئے اپنی شہید بیٹی کے کپڑے فروخت کر دیئے۔ ان کی بیٹی غزل اسرائیلی فوج کی فائرنگ سے اس وقت ہلاک ہوئی جب وہ رفح میں خوراک کی امداد کا انتظار کر رہی تھی۔ واضح رہے کہ غزہ میں امداد کے تقسیمی مراکز ”موت کے جال“ بن کر سامنے آئے ہیں جہاں خوراک کیلئے بے تاب فلسطینیوں کا استقبال روٹی کے بجائے گولیوں سے کیا جا رہا ہے۔
خوراک کے انتظار میں موت
اسرائیل کے ذریعے غزہ کی مکمل ناکہ بندی اور ۲۲ ماہ سے زائد عرصے سے جاری مسلسل بمباری کے باعث محصور علاقے کی بیس لاکھ سے زائد نفوس پر مشتمل آبادی بھکمری کا سامنا کر رہی ہے۔ صفاء نے اپنی بیٹی کی شہادت کو یاد کرتے ہوئے بتایا کہ وہ روٹی لینے کیلئے غزل کو ساتھ لئے جا رہی تھیں جب فوجیوں نے فائرنگ شروع کردی۔ اس افراتفری کے عالم میں، غزل ان کی نظروں سے اوجھل ہوگئی۔ کئی گھنٹوں بعد، غزل انہیں الناصر اسپتال میں ملی جو دھماکہ خیز گولیوں سے ہلاک ہو چکی تھی۔ صفاء اپنی بیٹی کے کپڑے لے کر گھر واپس آئیں اور سکون کیلئے انہیں سینے سے لگائے رکھا۔
یہ بھی پڑھئے: اسرائیل کا فلسطینیوں کی جبری منتقلی کیلئے کئی ممالک سے مذاکرات: اسرائیلی میڈیا
لیکن بھوک غم سے زیادہ طاقتور تھی۔ کوئی آمدنی نہ ہونے اور تین بچوں کو کھلانے کی ذمہ داری کے ساتھ، انہوں نے غزل کے کچھ کپڑے ایک کلو بینگن کے بدلے فروخت کر دیئے۔ اب، وہ دوبارہ یہی فیصلہ کرنے کے دہانے پر کھڑی ہیں: اپنی شہید بچی کی یادگار کا ایک اور ٹکڑا بیچ دیں یا اپنے بچوں کو بھوکا رہنے دیں۔
زندہ رہنے کیلئے یادیں بیچنے کی مجبوری
صفاء نے کہا کہ ”میں اپنی شہید بیٹی کے کپڑے، جنگ کی وجہ سے اور اپنے بچوں کیلئے کھانا لانے کیلئے بیچ رہی ہوں کیونکہ کوئی کمانے والا نہیں ہے۔“ ان کی دوسری بیٹی، جانا، جگر میں چھری کے زخموں کی وجہ سے رات بھر درد سے روتی رہتی ہے۔ ان کے خیمے کے اندر، بجلی، پانی یا خوراک کا کوئی مستحکم ذریعہ نہیں ہے۔ وہ کبھی کبھار کمیونٹی کچن سے مفت خوراک پر انحصار کرتی ہیں لیکن انہیں اکثر خالی ہاتھ بھی لوٹنا پڑتا ہے۔ جنگ سے پہلے، صفاء صفائی کی مصنوعات بناتی اور بیچتی تھیں۔ اب، غزہ کی سرحدوں اور خام مال پر اسرائیلی پابندیوں نے ان کی روزی روٹی ختم کر دی ہے۔
یہ بھی پڑھئے: زیتون : ۳؍روز میں اسرائیل نے ۳؍سو سے زیادہ گھر تباہ کئے
غزہ کا سنگین انسانی بحران
محاصرے نے غزہ میں انسانی تباہی کے حالات کو بدتر بنا دیا ہے۔ غزہ کے سرکاری میڈیا آفس کے مطابق، ۱۲ لاکھ بچے ”خوراک کی شدید قلت“ کا سامنا کر رہے ہیں اور اکتوبر ۲۰۲۳ء سے اب تک زائد از ۲۳۹ فلسطینی، جن میں ۱۰۶ بچے شامل ہیں، بھوک سے دم توڑ چکے ہیں۔ اقوام متحدہ کے ادارے ورلڈ فوڈ پروگرام نے خبردار کیا ہے کہ غزہ میں ایک لاکھ بچے اور خواتین شدید غذائی قلت کا شکار ہیں جبکہ غزہ کی آبادی کا ایک چوتھائی حصہ ”قحط جیسے“ حالات کے دہانے پر کھڑا ہے۔ یونیسیف کا کہنا ہے کہ بچے ”بے مثال شرح“ سے بھوک سے مر رہے ہیں۔
یہ بھی پڑھئے: غزہ میں کم از کم۱۰۰؍ بچے بھوک سے ہلاک ہوچکے ہیں:اقوام متحدہ
امدادی مقامات پر ہلاکتوں کی ہولناک تعداد
اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ مئی کے آخر سے غزہ ہیومینیٹیرین فاؤنڈیشن (جی ایچ ایف) نے غزہ میں امداد تقسیم کرنا شروع کیا ہے اور اب تک خوراک حاصل کرنے کی کوشش میں تقریباً ۱۴۰۰ افراد ہلاک اور ۴ ہزار سے زائد افراد زخمی ہوچکے ہیں۔ ان میں سے ۸۵۹ سے زائد اموات جی ایچ ایف کے امدادی مراکز کے پاس ہوئیں۔
اقوام متحدہ کی رپورٹ کے مطابق، غزہ جنگ کے دوران محصور علاقے میں ۶۱ ہزار سے زائد فلسطینی ہلاک ہو چکے ہیں اور ۹۰ فیصد سے زائد آبادی بے گھر ہو چکی ہے۔ ماہرین نے خبردار کیا ہے کہ موجودہ امدادی نظام نہ صرف بنیادی انسانی ضروریات کو پورا کرنے میں ناکام ہے بلکہ ان لوگوں کو بھی خطرے میں ڈال رہا ہے جن کی مدد کرنا اس کا مقصد ہے۔ اس دوران، جی ایچ ایف کو ختم کرنے، غزہ کی ناکہ بندی ہٹانے اور محفوظ اور بڑے پیمانے پر خوراک کی فراہمی کو یقینی بنانے کیلئے اقوام متحدہ کی قیادت میں ایک امدادی کوآرڈینیشن نظام بحال کرنے کے مطالبات میں عالمی سطح پر اضافہ ہوا ہے۔