Inquilab Logo Happiest Places to Work

امدادی مراکز پر جاں بحق ہونے والے فلسطینی بچوں کے والدین غم سے نڈھال

Updated: July 21, 2025, 10:04 PM IST | Gaza Strip

غزہ میں امدادی مرکز پر امداد حاصل کرنے کے دوران ہاشم النوری نامی شخص کے دو بیٹے اور ایک بھتیجی جاں بحق ہوگئے۔ ہاشم کی اہلیہ ایمان نے کہا کہ ’’ وہ خوراک حاصل کرنے کیلئے بھوکے نکلے تھے اور ان کی لاشیں واپس آئیں۔‘‘

Israel continues to bomb Palestinians waiting for aid. Photo: X
اسرائیل نے امداد کے منتظر فلسطینیوں پر بمباری کرنا جاری رکھا ہے۔تصویر: ایکس

فلسطینی والد ہاشم النوری کیلئے امداد حاصل کرنے کی روزمرہ کی کوشش ایک المیہ میں تبدیل ہوچکی ہے۔ ان کا ۲؍ سالہ بیٹا سراج اپنے دو بھائیوں اور بھتیجی کے ساتھ گزشتہ ہفتے وسطی غزہ میں امریکہ کے ذریعے چلائے جانے والے امدادی مرکز پر گیا تھا۔ وہ جیسے ہی امدادی مرکز پر پہنچے اسرائیلی جنگی جہاز نے ان چاروں اور امداد حاصل کرنے والے دیگر فلسطینیوں پر حملہ کیا جس کے نتیجے میں سراج بری طرح زخمی ہوگیا جبکہ اس کے دو بھائی عمر اور عامر اور سما ہلاک ہوگئے جن کی عمریں ۱۰؍ سال سے کم تھیں۔ ہاشم سے روتے ہوئے کہا ’’ ان بچوں نے کیا جرم کیا تھا؟ وہ صرف بھوکے تھے۔‘‘

یہ بھی پڑھئے: ’’میں اداکاری کو اہمیت دیتا ہوں، کہانی اور کردار کو نہیں‘‘

بے یارو مددگار والد اور ان کی اہلیہ ایمان، جو الاقصیٰ اسپتال میں اپنے بیٹے کے بازو میں بیٹھےہوئے ہیں، خوف اور غم میں ڈوبے ہوئے ہیں ۔ ایمان نے اس لمحے، جب ان کے بچے خوراک اور دیگر امداد حاصل کرنے کیلئے گھر سے نکلے تھے، کو یاد کرتے ہوئے کہا کہ ’’وہ بھوکے تھے، صرف کچھ میٹھا کھانا چاہتے تھے۔ سراج کچھ میٹھا کھانے کیلئے رو رہا تھا اور پانچ منٹ کے بعد ان پر بمباری کر دی گئی تھی۔‘‘

اسرائیل کی قائم کردہ بھکمری 
اسرائیل کی طرف سے گزشتہ چند ماہ میں خوراک، ایندھن اور دیگر ادویات پر عائد کی گئی پابندیوں کی وجہ سے فلسطینی خطے میں ۶؍ لاکھ ۵۰؍ ہزار بچے بھکمری کے دہانے پر ہیں۔ ایندھن کی کمی کی وجہ سے اسرائیلی حملے کے بعد ایمبولینس چاروں بچوں تک نہیں پہنچ سکی۔ اس کے بجائے پڑوسیوں نے ان کی لاشوں کو گدھا گاڑھی پر رکھ کر اسپتال تک پہنچایا۔ وزارت صحت کے مطابق ’’مکمل ڈپارٹمنٹس میں بجلی منقطع کرنے اور بلڈ بینک کے ریفریجریٹر کے کام کرنا بند ہونے کی وجہ سے مریضوں کی زندگی خطرے میں ہے۔‘‘ ایمان نے کہا کہ ’’جب ہم عمر کو اندر لے کر آئے تھے تو اس کی سانسیں چل رہی تھیں۔ لیکن اس وقت کوئی بھی ایمبولینس، خون اور ایمرجنسی ٹیمیں ان تک نہیں پہنچ سکیں۔‘‘ انہیں لگتا ہے کہ ان کے بیٹے کو بچایا جاسکتا تھا۔ سراج کے والد ہاشم نے کہا کہ ’’وہ خوراک حاصل کرنے گئے تھے، بس۔ اور شہید ہو کر واپس آئے۔ صرف میٹھا کھانے کیلئے سراج زندگی اور موت سے لڑرہا ہے۔‘‘

یہ بھی پڑھئے: جاپان ہاؤس الیکشن: وزیراعظم اشیبا کی پارٹی کے اتحاد کو ایوان بالا میں شکست 

چونکہ غزہ کے کچھ ہی اسپتال کام کر رہے ہیں اور دیگر اسپتالوں میں سامان کی سخت قلت ہے اسی لئے  ہاشم کے اہل خانہ یہ چاہتے ہیں کہ ان کے دو سالہ بیٹے کو بیرون ممالک علاج کیلئے بھیجے جانے والے افراد کی فہرست میں شامل کر لیا جائے۔ ہاشم کی والدہ ایمان نے کہا کہ ’’میں اسے بھی کھونا نہیں چاہتی ہوں۔ عمر اور عامر ویسے ہی ہیں چھوڑ کر چلے گئے ہیں۔ میں ایک اور بیٹے کو کھونے کا غم برداشت نہیں کرسکتی۔‘‘

یہ بھی پڑھئے: سالگرہ پر تہنیت : نصیرالدین شاہ نےآرٹ اور کمرشل فلموں دونوں میں نام کمایا

عینی شاہدین اور دیگر رشتہ داروں کے مطابق بچے امدادی مرکز کے سائیڈ واک کے قریب کھڑے ہوئے تھے۔ وہ بچے تھے اور اسرائیلی فوج یہ دیکھ سکتی تھی لیکن پھر بھی انہوں نے ہچکچائے بغیر بمباری کر دی۔‘‘ یاد رہے کہ مقبوضہ خطے میں تیزی سے پھیلتی ہوئی بیماری اور بھکمری کے درمیان یہ حملہ امداد کے منتظر ہجوم پر بے دردی سے کئے جانے والے حملوں میں شامل ہے۔ سرکاری ذرائع کے مطابق ۲۷؍ مئی سے اب تک امداد حاصل کرنے کے دوران ہلاک ہونے والے فلسطینیوں کی تعداد ۹۲۲؍ ہوچکی ہے جبکہ ۵؍ ہزار ۸۶۱؍ افراد زخمی ہوئے ہیں جہاں اسرائیلی پابندیوں کی وجہ سے غزہ میں بنیادی اشیاء کی سپلائی مشکل ہوچکی ہے وہیں اسرائیل کی مسلسل بمباری نے لوگوں کی زندگیوں کو تباہ کرنا جاری رکھا ہے۔ اس درمیان بین الاقوامی مداخلت کیلئے مطالبہ کیا جارہا ہے لیکن غزہ کے خاندانوں کا کہنا ہے کہ امداد تاخیر سے پہنچتی ہے۔

 غزہ میں اسرائیلی نسل کشی

یاد رہے کہ اب تک فلسطینی خطے میں ہلاک ہونے والے فلسطینیوں کی تعداد ۵۹؍ ہزار سے تجاوز کرچکی ہے جن میں زیادہ تر خواتین اور بچے شامل ہیں۔ فلسطین کی خبر رساں ایجنسی وفا کے مطابق ’’ تقریباً ۱۱؍ ہزار فلسطینیوں کے ملبے میں دبے ہونے کا خطرہ ہے۔‘‘ ماہرین کا کہنا ہے کہ اسرائیلی حملے میں ہلاک ہونے والے افراد کی حقیقی تعداد ۲؍ لاکھ سے زیادہ ہوسکتی ہے۔ اسرائیل نے اپنی نسل کشی کے ذریعے فلسطینی خطے کو ملبے میں تبدیل کردیا ہے اور اس کی زیادہ تر آبادی کو بے گھر کر دیا ہے۔‘‘

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK