ریاستی درجے کی بحالی کیلئے کیا جانے والا احتجاج پرتشدد ہو گیا، ۴؍ ہلاک ، ۶۰؍ زخمی ، سونم وانگ چک نے فوری طور پر بھوک ہڑتال ختم کردی، عوام سے امن و امان قائم رکھنے کی اپیل۔
EPAPER
Updated: September 25, 2025, 1:55 PM IST | Agency | Leh
ریاستی درجے کی بحالی کیلئے کیا جانے والا احتجاج پرتشدد ہو گیا، ۴؍ ہلاک ، ۶۰؍ زخمی ، سونم وانگ چک نے فوری طور پر بھوک ہڑتال ختم کردی، عوام سے امن و امان قائم رکھنے کی اپیل۔
لداخ کو مکمل ریاست کا درجہ دینے کا مطالبہ زور پکڑ تا جارہا ۔ماہر ماحولیات سونم وانگ چک اس مانگ کو لے کر ۱۵؍ دن سے بھوک ہڑتال پر ہیں۔ بدھ کو اس سلسلہ میں طلبہ نے بھی احتجاج کیا لیکن اس دوران وہاں تشدد پھوٹ پڑا۔ رپورٹ کے مطابق سیکریٹریٹ کی طرف مارچ کرنے سے روکے جانے پر طلبہ مشتعل ہو گئے اور ان کی پولیس کے ساتھ جھڑپیں شروع ہو گئیں۔ اس احتجاج نے نیپال میں گزشتہ دنوں ہونے والے ’ جین زی ‘ احتجاج کی یاد دلادی ۔ وہاں بھی اسی طرح سے طلبہ کو روکے جانے کے بعد تشددپھوٹ پڑا تھا ۔ دریں اثناء طلبہ کا غصہ اتنا زیادہ تھا کہ لیہہ میں موجود بی جے پی کا دفتر بھی نذر آتش کر دیا گیا۔ مظاہرین کا مطالبہ ہے کہ لداخ کو مکمل ریاست کا درجہ دیا جائے اور اسے آئین کے چھٹے شیڈول میں شامل کیا جائے۔
رپورٹ کے مطابق، سونم وانگ چک کی قیادت میں طلبہ اور شہری سڑکوں پر نکل آئے اور حکومت سے اپنے مطالبات کے حق میں آواز بلند کرنے لگے۔ مظاہرین نے پولیس پر پتھراؤ کیا اور سی آر پی ایف کی ایک گاڑی کو آگ لگا دی۔ اس دوران بی جے پی کے دفتر کے باہر بھی احتجاج کیا گیا۔ مظاہرین نے کئی گاڑیوں اور دیگر عوامی املاک کو نقصان پہنچایا جبکہ پولیس نے مظاہرین کو منتشر کرنے کے لئے لاٹھی چارچ کیا اور آنسو گیس کے گولے داغے لیکن مظاہرین بہت مشکل سے قابو میں آئے۔
یاد رہے کہ ۵؍اگست۲۰۱۹ءکو آرٹیکل۳۷۰؍ کے خاتمے کے بعد لداخ کو علاحدہ مرکز کے زیر انتظام علاقہ قرار دیا گیا تھا اور اس فیصلے کے بعد جموں کشمیر اور لداخ دو الگ الگ مرکز کے زیر انتظام علاقے بن گئے تھے۔ حکومت نے اس وقت کہا تھا کہ حالات معمول پر آنے پر مکمل ریاست کا درجہ بحال کردیا جائے گا۔ اب طلبہ اور وانگ چک اس وعدے کے نفاذ کے لئے احتجاج کر رہے ہیں۔سونم وانگ چک کی قیادت میں لداخ کی اپیکس باڈی چار اہم مطالبات کر رہی ہے۔ سب سے پہلا مطالبہ یہ ہے کہ لداخ کو مکمل ریاست کا درجہ دیا جائے۔ دوسرا مطالبہ آئین کے چھٹے شیڈول میں لداخ کو شامل کرنا ہے تاکہ وہاں کے مقامی لوگوں کو مخصوص حقوق حاصل ہوں۔ تیسرا مطالبہ دو لوک سبھا نشستیں دینے کا ہے تاکہ لداخ کی سیاسی نمائندگی مضبوط ہو۔ چوتھا مطالبہ یہ ہے کہ لداخ کےقبائل کو آئینی طور پر مقامی یا آدیواسی کا درجہ دیا جائے تاکہ ان کے ثقافتی اور اقتصادی حقوق محفوظ رہیں اور وہ ترقی کرسکیں۔
واضح رہے کہ ان پرتشدد جھڑپوں میں ۴؍ سے ۵؍ افراد کے ہلاک ہونے کی اطلاعات ہیں جبکہ ۶۰؍ سے زائد افراد زخمی بتائے جارہے ہیں۔ اس احتجاج کے دوران لیہ میں بند رہنے کی اطلاعات ہیں اور بڑی تعداد میں لوگ سڑکوں پر موجود تھے۔ اگرچہ صورتحال پر بڑی حد تک قابو پایا گیا ہے مگر طلبہ اور شہری حکومت کے وعدوں کے فوری نفاذ کے لیے پرعزم ہیں۔
وانگ چک کی قیادت میں احتجاج نہ صرف لداخ کے مستقبل کے بارے میں عوامی اشتعال میں اضافہ کر رہا ہے بلکہ ملک کی توجہ بھی اس علاقے کی خصوصی حیثیت کی طرف مرکوز ہو رہی ہے۔ دریں اثناءلداخ کو ریاست کا درجہ دینے کے مطالبے کے لیے بھوک ہڑتال کرنے والے ماحولیاتی کارکن اور استاد سونم وانگ چک نے بدھ کو اپنی ۱۵؍ روزہ بھوک ہڑتال ختم کر دی۔ یہ فیصلہ اس وقت آیا جب لیہ میں پرتشدد احتجاج اور توڑ پھوڑ کے واقعات پیش آئے، جس سے حالات کشیدہ ہو گئے۔سونم وانگ چک نے کہا کہ لیہ میں ہوئے تشدد کو دیکھ کر انہیں شدید تکلیف ہوئی۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ تشدد صرف چند حامیوں تک محدود نہیں تھا بلکہ پورے لداخ کے احساسات کی عکاسی کرتا ہے۔ انہوں نے اسے نوجوان نسل کے غصے اور ’جین-زی‘ انقلاب کی ایک شکل قرار دیا، جو انہیں سڑکوں پر لے آیا۔
وانگ چک نے واضح کیا کہ آج وہاں کوئی جمہوری پلیٹ فارم موجود نہیں ہے اور لداخ کی نوجوان نسل سے اپیل کی کہ وہ تشدد کے راستے پر نہ چلیں، ورنہ پچھلے پانچ سال کی جدوجہد ضائع ہو جائے گی۔ انہوں نے زور دیا کہ حکومت نے امن کا پیغام دیا ہے اور اسے نظر انداز نہیں کیا جانا چا ہئے۔ انہوں نے اعادہ کیا کہ نوجوان نسل کو امن کے راستے پر چلنا چاہیے تاکہ تحریک کا مقصد مکمل ہو اور لداخ کو مکمل ریاست کا درجہ دینے کا مطالبہ پرامن طریقے سے آگے بڑھ سکے۔واضح ہو کہ لیہ اور لداخ میں مظاہرین کے ۴؍ بنیادی مطالبات ہیںجن میںلداخ کو مکمل ریاست کا درجہ،چھٹے شیڈول کے تحت آئینی تحفظات ،کرگل اور لیہ کے لیے لوک سبھا کی الگ الگ سیٹیں اورسرکاری ملازمتوں میں مقامی لوگوں کو ترجیح دینے کے مطالبات شامل ہیں۔ ان مطالبات پر اگلی میٹنگ ۶؍ اکتوبر کو دہلی میں ہوگی۔
دریں اثناء بی جے پی نے لیہ میں اپنے دفتر پر حملے کے لئے کانگریس کو ذمہ دار قرار دیا ہے۔ پارٹی کے ترجمانوں نے کہا کہ کانگریس نیپال کے جین زی کے نام پر ہندوستان میں بھی نوجوانوں کو اکسارہی ہے اور لیہ میں جو کچھ ہوا وہ اسی کا نتیجہ ہے۔ اس کے لئے راہل گاندھی کو ذمہ دار ٹھہرایا جانا چاہئے کیوں کہ وہی بار بار جین زی سے اپیلیں کررہے ہیں۔ اس معاملے میں کانگریس نے واضح کیا ہے کہ تشدد سے اس کا کوئی لینا دینا نہیں ہے۔ مقامی کانگریس نے اس تشدد کی بھرپور مذمت کی ہے۔ یاد رہے کہ نیپال میں جین زی احتجاج کے بعد سے دنیا بھر کے برسراقتدار طبقوں میں کافی تشویش پائی جارہی ہے اور اسی وجہ سے وہ ہر احتجاج کو دبانے کی کوشش کررہے ہیں۔