• Tue, 16 September, 2025
  • EPAPER

Inquilab Logo Happiest Places to Work

جرمنی: اسرائیل، فلسطین پر تحقیق کرنے والے ماہرین تعلیم میں خود سینسرشپ میں تشویشناک اضافہ: تحقیق

Updated: September 16, 2025, 7:02 PM IST | Berlin

جرمن حکام اکثر یہود دشمنی کے بیانات کے متعلق خدشات کا حوالہ دے کر ان پابندیوں کو جائز قرار دیتے ہیں۔ تاہم، ناقدین کا کہنا ہے کہ اس طرح کے اقدامات کے ذریعے جائز تعلیمی اور سیاسی بحث کو خاموش کر دیا جاتا ہے۔

A scene from a pro-Palestinian protest in Berlin. Photo: X
برلن میں فلسطین حامی احتجاج کا ایک منظر۔ تصویر: ایکس

جرمنی میں حال ہی میں کئے گئے ایک سروے میں انکشاف ہوا ہے کہ ملک میں اسرائیل اور فلسطین کا مطالعہ کرنے والے ماہرین تعلیم میں تعلیمی آزادی کے بڑھتے ہوئے خوف کے باعث خود سینسرشپ کے رجحان میں اضافہ ہو رہا ہے۔ یہ تحقیق، فری یونیورسٹی آف برلن کے ’انٹریکٹ سینٹر فار انٹر ڈسپلنری پیس اینڈ کنفلکٹ اسٹڈیز‘ کی جانب سے کی گئی جس کے نتائج پیر کو جاری کئے گئے۔ 

”جرمن اکیڈمیا، ۷ اکتوبر کے بعد: مشرق وسطیٰ پر مرکوز محققین میں خود سینسرشپ اور پابندیاں“ کے عنوان سے اس تحقیق میں تقریباً ۲۰۰۰ اسکالرز کا سروے کیا گیا جس میں ۸۵ فیصد جواب دہندگان نے بتایا کہ وہ ۷ اکتوبر کو حماس-اسرائیل جنگ کے آغاز کے بعد سے جرمنی میں تعلیمی آزادی کیلئے بڑھتے ہوئے خطرے کو محسوس کرتے ہیں۔

یہ بھی پڑھئے: پولینڈ کا گوگل کو غزہ میں قحط کا انکار کرنے والے اسرائیلی اشتہار ہٹانے کا حکم

پوسٹ ڈاکٹریٹ محققین نے اس ضمن میں سب سے زیادہ تشویش کا اظہار کیا جن میں سے ۹۰ فیصد سے زائد افراد نے بڑھتے ہوئے دباؤ کی اطلاع دی۔ جبکہ ۹ء۲۵ فیصد اسکالرز نے کہا کہ وہ آزادانہ طور پر اظہار کرنے میں اکثر خود کو ناکام محسوس کرتے ہیں۔ سروے میں شامل ۷۶ فیصد اسکالرز نے اسرائیل سے متعلق موضوعات پر خود سینسرشپ کا اعتراف کیا۔ تعلیم و تحقیق کے میدان میں خود سینسرشپ کی یہ شرح، عوامی تقریبات (۸۱ فیصد) اور میڈیا میں (۵۴ فیصد) سے زیادہ واضح تھی۔

خود سینسرشپ کی وجوہات

تحقیق سے پتہ چلا ہے کہ بیشتر ماہرینِ تعلیم، غلط فہمیوں، آن لائن دشمنی یا پیشہ ورانہ نتائج کے خوف سے اپنی رائے کا اظہار نہیں کرتے۔ عربی علوم، اسلامی علوم اور سماجی علوم کے شعبوں میں خود سینسرشپ کی سب سے زیادہ سطح کی اطلاع دی گئی۔ اگرچہ ۴۷ فیصد اسکالرز نے کسی پابندی کی اطلاع نہیں دی لیکن دیگر نے آن لائن نفرت انگیز تقریر اور دھمکیاں (۱۹ فیصد)، یہود دشمنی کے الزامات (۱۹ فیصد)، میڈیا میں بدنامی (۱۶ فیصد) اور ادارہ جاتی اخراج (۱۴ فیصد) جیسے تجربات بیان کئے۔

یہ بھی پڑھئے: ایمی ایوارڈزمیں ’’آزاد فلسطین‘‘ کا نعرہ بلند، جنگ بندی کا پُرزور مطالبہ

واضح رہے کہ اکتوبر ۲۰۲۳ء سے، جرمن حکام نے فلسطین حامی بیانات پر پابندیاں سخت کر دی ہیں جس میں احتجاج پر پابندی، یونیورسٹی پینلز کی منسوخی اور بین الاقوامی شخصیات کو ثقافتی اور تعلیمی تقریبات میں شرکت سے روکنا شامل ہے۔ حکام اکثر یہود دشمنی پر مبنی بیانات کے بارے میں خدشات کا حوالہ دے کر ان پابندیوں کو جائز قرار دیتے ہیں۔ تاہم، ناقدین کا کہنا ہے کہ اس طرح کے اقدامات اسرائیلی حکومتی پالیسیوں پر تنقید کو یہود دشمنی کے ساتھ ملا دیتے ہیں، جس سے جائز تعلیمی اور سیاسی بحث کو خاموش کر دیا جاتا ہے۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK