Inquilab Logo Happiest Places to Work

یونان بحری جہاز سانحہ: ایک سال بعد بھی جوابات نہ ملنے پر لواحقین کا مظاہرہ

Updated: June 14, 2024, 9:05 PM IST | Athens

حادثے کے ایک سال گزرنے کے بعد، ساحلی محافظوں کے کردار کے بارے میں بحریہ کی عدالت کی تحقیقات ابھی ابتدائی مرحلے میں ہے، یونان کے جہاز رانی کے وزیر نے صبر کی تلقین کی ہے۔

Photo: INN.
تصویر: آئی این این۔

جمعہ کو یونان میں ایک بحری جہاز کے تباہ ہونے کی برسی کے موقع پرمظاہرین نے ریلی نکالی جس میں یونان کے قریب سیکڑوں تارکین وطن ہلاک ہوئے تھے۔ مظاہرین نےاس کے ڈوبنے کی وجوہات اور لاپتہ رشتہ داروں کے بارے میں جوابات کا مطالبہ کیا۔ 
بتادیں کہ پاکستان، شام اور مصر سے تعلق رکھنے والے ۷۰۰؍ تارکین وطن کو لیبیا میں مچھلی پکڑنے والے ٹرالر میں سوار کر کے اٹلی روانہ کیا گیا جو ۱۴؍ جون۲۰۲۳ء کو جنوب مغربی یونان کے قریب الٹ گیا، حالانکہ یونانی کوسٹ گارڈ گھنٹوں سے اس کی نگرانی کر رہا تھا۔ اس حادثے میں ۱۰۴؍ افراد زندہ بچ گئے تھے لیکن صرف ۸۲؍ لاشیں ہی نکالی گئیں۔ یہ واقعہ بحیرہ روم کی کشتیوں کی بدترین حادثات میں سے ایک سمجھا جاتا ہے۔ اس حادثے نے کئی سوالات کو جنم دیا کہ یورپی یونین کس طرح تارکین وطن کی بڑھتی تعداد کو روکنے کی کوشش کر رہی ہے۔ 

یہ بھی پڑھئے: اٹلی میں جی سیون سربراہی اجلاس کا آغاز

زندہ بچ جانے والے مصری تاریک وطن محمد نے بتایا کہ میں روز ڈراؤنے خواب سے جاگتا ہوں۔ میں خدا کی قسم کھا کر کہتا ہوں، میرا جسم اب بھی تکلیف محسوس کرتا ہے۔ مگر ہم اللہ کا شکر ادا کرتے ہیں کہ ہم بچ گئے مگر جو اس حادثے میں اپنی جان گنوا بیٹھے، ان کی لاشیں کہاں ہیں، یہ سوال اب بھی برقرار ہے۔ زندہ بچ جانے والے اور کارکن ایتھنز، لندن، پیرس اور برلن میں ریلیوں کی منصوبہ بندی کررہے ہیں ، پاکستانی شہر لالموسہ میں مقتولین کے لواحقین نے ایک یادگاری تقریب کا انعقاد کیا۔ زندہ بچ جانے والوں کا کہنا ہے کہ کوسٹ گارڈ کی وجہ سے جہاز ڈوب گئی جبکہ حکام کا کہنا ہے کہ کشتی پر سوار تارکین وطن کی زیادہ تعداد کشتی کے ڈوبنے کا سبب بنی۔ 
حادثے کے ایک سال گزرنے کے بعد، ساحلی محافظوں کے کردار کے بارے میں بحریہ کی عدالت کی تحقیقات ابھی ابتدائی مرحلے میں ہے، جو زندہ بچ جانے والوں، رشتہ داروں اور انسانی حقوق کے محافظوں کو مایوس کر رہی ہے۔ یونان کے جہاز رانی کے وزیر نے صبر کی تلقین کی ہے۔ یونان کے ڈیزاسٹر وکٹم آئیڈینٹیفیکیشن یونٹ کے کمانڈر پینٹلیس تھیملیس نے بتایا کہ مرنے والوں میں سے۸۲؍ میں سے۷۴؍ کی شناخت کر لی گئی ہے۔ لیکن افریقہ، مشرق وسطیٰ اور ایشیا کے بہت سے خاندانوں نے ڈی این اے کے نمونے یونان بھیجے ہیں جن کا کوئی فائدہ نہیں ہوا۔ پاکستان سے تعلق رکھنے والے یونان کے رہائشی حسن علی نے کہا کہ ان کا بھائی فہد لاپتہ ہونے والوں میں شامل ہے اور پاکستان میں واپس آنے والے ان کے والدین اس بات کو قبول نہیں کریں گے کہ ان کی موت ہو سکتی ہے۔ علی نے کہا، ’’میرے والدین اس کا انتظار کر رہے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ وہ زندہ ہے، اور یونان میں ہے۔‘‘

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK