ماضی میں یوراج سنگھ سے لے کر جارج بیلی اور کے ایل راہل تک ٹیم کی کپتانی کرچکے ہیں۔ اگر پنجاب کو آئی پی ایل کا خطاب جیتنا ہے تو اسے شریاس ایر پر بھروسہ کرنا ہوگا۔
EPAPER
Updated: June 06, 2025, 11:39 AM IST | Nitin Nagar | Mumbai
ماضی میں یوراج سنگھ سے لے کر جارج بیلی اور کے ایل راہل تک ٹیم کی کپتانی کرچکے ہیں۔ اگر پنجاب کو آئی پی ایل کا خطاب جیتنا ہے تو اسے شریاس ایر پر بھروسہ کرنا ہوگا۔
آئی پی ایل کے ۱۸؍ویں سیزن کے اختتام کے ساتھ ہی پنجاب کنگز کی قسمت ایک بار پھر ناکام ہوگئی۔ احمد آباد میں منگل کو کھیلے گئے فائنل میچ میں آر سی بی نے انہیں شکست دے کر پہلی بار آئی پی ایل ٹرافی جیت لی اور پنجاب کی ٹیم ۱۱؍ سال بعد خطاب کے اتنے قریب آنے کے بعد ایک بار پھر اس سے محروم رہ گئی۔ ۲۰۰۸ء سے ۲۰۲۵ءتک پنجاب کی ٹیم نے فرنچائز کا نام تبدیل کیا (کنگز الیون پنجاب سے پنجاب کنگز)، ان ۱۸؍برسوں میں ۱۷؍ کپتان بدلے، لیکن ٹیم کی تقدیر نہ بدل سکی۔ پنجاب کے پہلے کپتان یوراج سنگھ تھے جنہوں نے ٹیم کو ایک نئی شناخت دی۔ ان کی کپتانی میں ٹیم ۲۰۰۸ءمیں سیمی فائنل تک پہنچی لیکن اس کے بعد کپتانی کی تبدیلی کا کھیل شروع ہوا۔
یوراج سنگھ کے بعد مہیلا جے وردھنے، کمار سنگاکارا، ایڈم گلکرسٹ، ڈیوڈ ملر، ڈیوڈ ہسی، جارج بیلی، مرلی وجے، گلین میکسویل، روی چندرن اشون، کے ایل راہل، مینک اگروال اور شیکھر دھون جیسے کئی کھلاڑیوں نے کپتانی سنبھالی لیکن ٹیم کو کامیابی نہیں ملی۔ ان میں سب سے کامیاب کپتان پر نظر ڈالیں تو ۲۰۱۴ءمیں جارج بیلی کا نام سب سے پہلے آتا ہے۔ آسٹریلیا کے اس ٹھنڈے دماغ کے کپتان نے پنجاب کنگز کو اپنے کرئیر کے بہترین مرحلے تک پہنچایا اور فائنل تک رسائی حاصل کی۔ اس سال پنجاب نے جارحانہ کرکٹ کھیلی اور تقریباً ہر ٹیم کو شکست دی اور فائنل میں کولکاتا نائٹ رائیڈرز سے مقابلہ کیا لیکن بالآخر خطاب کی امیدوں پر پانی پھر گیا۔ تب سے کپتانی پنجاب کنگز کے لئےرولر کوسٹر ثابت ہوئی۔
کے ایل راہل نے بھی بطور کپتان شاندار کارکردگی کا مظاہرہ کیا، لیکن ان کا انفرادی کھیل شاندار تھا اور ان کی قیادت میں پنجاب نے کئی قریبی میچ جیتے، پھر بھی ٹیم پلے آف سے آگے نہیں بڑھ سکی۔ کپتانی میں بار بار کی جانے والی تبدیلیوں نے ٹیم کی ہم آہنگی اور اعتماد پر گہرا اثر ڈالا۔ ہر نئے کپتان کے ساتھ ٹیم کو نئے سرے سے بنانا پڑتا ہے، کھلاڑیوں نے اپنے کردار تلاش کرنا شروع کر دئیے اور بعض اوقات ڈریسنگ روم میں حکمت عملی میں استحکام نہیں رہا۔ نتیجہ یہ نکلا کہ پنجاب کنگز ہر سال ایک نئے کپتان کے ساتھ میدان میں اتری لیکن خطاب جیتنےکا خواب پھر بھی ادھورا رہا۔
پنجاب کو اب ایک کپتان پر طویل مدتی اعتماد ظاہر کرنا ہو گا تاکہ وہ کھلاڑیوں کا اعتماد جیت سکے اور ایک مستحکم اور مضبوط ٹیم کلچر تشکیل دے سکے۔ کپتان اور ٹیم انتظامیہ کو ڈریسنگ روم میں استحکام لانا چاہیے اور ٹائٹل کا راستہ آسان بنانا چاہیے اور شریاس ایر اس کے لئے موزوں ہیں۔ گزشتہ سال کے کے آر کی ۱۰؍سالہ خطاب کے قحط کو ختم کرنے والے شریاس ایر پنجاب کنگز کو پہلی بار چمپئن بنانے کا موقع بہت کم فرق گنوا دیا لیکن انہوں نے خود کو ایک ایسے کپتان کے طور پر قائم کیا ہے جس کی ہندوستان کو مستقبل میں ضرورت پڑسکتی ہے۔ ایرکی قیادت میں پنجاب وہ حاصل کر سکتا ہے جس کی وہ ۱۸؍ برسوں سے تلاش کر رہا ہے۔ دھونی اور روہت شرما کے بعد ایر ۳؍ آئی پی ایل فائنل تک پہنچنے والے تیسرے کپتان بن گئے ہیں۔ ان کی یہ کامیابی بہت خاص ہے کیونکہ انہوں نے گزشتہ ۵؍برسوں میں ۳؍ مختلف فرنچائز ٹیموں کے ساتھ یہ کارنامہ انجام دیا ہے۔
کے کے آرنے انہیں پچھلے سال جانے دیا کیونکہ فرنچائزی ٹیم کو ان کی بڑی ریٹینشن فیس کا مطالبہ ٹھیک نہیں لگا۔ کے کے آر کا یہ نقصان پنجاب کنگز کے لئے ایک بڑا فائدہ ثابت ہوا۔ پنجاب کی ٹیم کو ۳۰؍ سالہ کھلاڑی کی صورت میں ایک سمجھدار اور پُرجوش کپتان ملا۔ ایک ایسا کپتان جو کریئر کے اتار چڑھاؤ کو احسن طریقے سے ہینڈل کرنا جانتا ہے۔ منگل کو فائنل میں بنگلورکے خلاف ۶؍ رن سے شکست کے باوجود، ایر میں اعتماد کی کمی نہیں تھی۔
پنجاب نے ماضی میں جہاں کپتان تبدیل کئے ہیں، وہیں کوچز کو بھی ہٹانے میں دیر نہیں لگائی، لیکن اب ان کے پاس رکی پونٹنگ کی شکل میں ایک کوچ موجود ہے، جس نے آسٹریلیا کیلئے ۲؍ بار ورلڈ کپ جیتا اور جو ٹیم بنانا جانتا ہے۔ پونٹنگ کے ساتھ شریاس کی جگل بندی کافی پرانی ہے۔ ۲۰۱۷ءمیں جب گوتم گمبھیر نے سیزن کے وسط میں کپتانی چھوڑنے کا فیصلہ کیا تھا تب شریاس ایر پونٹنگ کے مشورے پر دہلی آئی پی ایل فرنچائز کے کپتان بن گئے۔ دہلی ۲۰۲۰ءمیں آئی پی ایل کے فائنل میں پہنچی، جو اس لیگ میں ٹیم کی اب تک کی سب سے بڑی کامیابی ہے۔ چوٹ کی وجہ سے وقفہ لینے کے بعد، دہلی کیپٹلس نے فیصلہ کیا کہ وہ ایر کو برقرار رکھ کر رشبھ پنت کو کھونے کا خطرہ مول نہیں لے سکتے۔ پنت اُس وقت کے ابھرتے ہوئےاسٹار تھے اور ان کی کپتانی کے عزائم تھے۔
شریاس ایر اس کے بعد کے کے آر کے کپتان بنے اور ٹیم ۲۰۲۴ءمیں چمپئن بن گئی۔ تاہم ایر کو اس خطاب کا زیادہ کریڈٹ نہیں ملا کیونکہ انہوں نے ٹیم کی ضروریات کے مطابق نچلے آرڈر میں بیٹنگ کی۔ ٹیم کے اس وقت کے مینٹور اور ہندوستانی ٹیم کے موجودہ کوچ گوتم گمبھیر کو اسٹریٹجک ذہانت کا زیادہ کریڈٹ ملا۔ کپتان کے بے ساختہ فیصلوں اور سمجھدار تیاریوں پر کسی نے زیادہ توجہ نہیں دی۔ تاہم، اگر کوئی کھلاڑی ۲؍ مختلف فرنچائزی ٹیموں کی قیادت مختلف مینجمنٹ، مختلف نظریے اور کھلاڑیوں کی بدلتی فہرست کے ساتھ کرتا ہے اور لگاتار ۲؍ سیزن میں فائنل تک پہنچ جاتا ہے، تو اس کی صلاحیت کو زیادہ دیر تک نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ اس وقت پنجاب کے شائقین اب بھی امید کر رہے ہیں کہ ٹیم اگلے سیزن میں آئی پی ایل ٹرافی جیت لے گی، جب تک پنجاب اپنی قائدانہ استحکام اور اسٹریٹجک طاقت کو برقرار نہیں رکھتا، ٹرافی جیتنا ان کے لئے خواب ہی رہے گا۔
۲۰۰۸ء سے ۲۰۲۵ء تک پنجاب کے کپتان
۱) یوراج سنگھ(۲)کمار سنگاکارا(۳) مہیلا جے وردھنے (۴) ایڈم گلکرسٹ (۵)ڈیوڈ ہسی(۶) جارج بیلی (۷) وریندر سہواگ (۸) ڈیوڈ ملر(۹)مرلی وجے(۱۰) گلین میکسویل (۱۱) روی چندرن اشون( ۱۲) کے ایل راہل (۱۳) مینک اگروال( ۱۴)شیکھر دھون(۱۵) سیم کرن (۱۶) جتیش شرما ( ۱۷) شریاس ایر۔