گجرات کے بہیال میں ’’ آئی لو محمد‘‘ کی آن لائن مہم کے خلاف ہندو دائیں بازو کے گروپوں کی جانب سے نفرت انگیز مہم چلانے کے بعد تشدد پھوٹ پڑا، مسلمانوں کا الزام ہے کہ پولیس نے یکطرفہ کارروائی کرتے ہوئے ہجوم کا ساتھ دیا۔
EPAPER
Updated: September 27, 2025, 4:12 PM IST | Gandhi Nagar
گجرات کے بہیال میں ’’ آئی لو محمد‘‘ کی آن لائن مہم کے خلاف ہندو دائیں بازو کے گروپوں کی جانب سے نفرت انگیز مہم چلانے کے بعد تشدد پھوٹ پڑا، مسلمانوں کا الزام ہے کہ پولیس نے یکطرفہ کارروائی کرتے ہوئے ہجوم کا ساتھ دیا۔
گجرات کے بہیال میں’’ آئی لو محمد‘‘ کی آن لائن مہم کے خلاف ہندو دائیں بازو کے گروپوں کی جانب سے نفرت انگیز مہم چلانے کے ساتھ توہین آمیز تبصرے کئے گئے جس کے بعد تشدد پھوٹ پڑا، مسلمانوں کا الزام ہے کہ پولیس نے یکطرفہ کارروائی کرتے ہوئے ہجوم کا ساتھ دیا۔ مقامی افراد کا الزام ہے کہ ہندو گروپوں کے ارکان، جن میں سے کچھ قریبی گاؤں سے آئے تھے، مسلمانوں کے گھروں میں گھس گئے،الزام یہ بھی ہے کہ یہ پولیس کی موجودگی میں ،جائیداد کو نقصان پہنچایا اور عورتوں اور بچوں پر تشدد کیا۔
بتایا جاتا ہے کہ یہ بدامنی اس وقت شروع ہوئی جب اس علاقے کے رہائشی ہتیش بھائی پٹیل بینکر نے’’ آئی لو محمد‘‘ آن لائن مہم چلانے والے مسلمانوں کی توہین کی، انہیں ’’جاہل‘‘ کہا اور ہندوؤں سے ’’آئی لومہادیو‘‘کی جوابی مہم شروع کرنے کی اپیل کی۔ مسلم رہائشیوں نے بینکر کے خلاف ایف آئی آر درج کرنے کا مطالبہ کیا۔صورتحال اس وقت مزید سنگین ہو گئی جب گربا تقریبات کے دوران مسلمانوں کا ایک گروپ غیر ارادی طور پر ایک ہندو اکثریتی علاقے سے گزرا۔ الزام ہے کہ مقامی لوگوں نے انہیں مارا پیٹا، جس کے بعد بڑے پیمانے پر تشدد پھوٹ پڑا۔ چشم دیدوں نے مکتوب میڈیا کو بتایا کہ پولیس حملوں کے دوران کھڑی رہی لیکن اس نے جانبداری کا مظاہرہ کیا، مسلمانوں کے گھروں کو نشانہ بنایا اور مسلمانوں کو ہی گرفتار کیا، جبکہ حملے اور پتھراؤ کرنےوالے افراد کے خلاف فوری کارروائی نہیں کی گئی۔رہائشیوں کا یہ بھی الزام ہے کہ ہتیش بینکر کا مسلمانوں کے خلاف اشتعال انگیزی کا ایک سلسلہ چلا آ رہا ہے۔ ایک رہائشی شاہ رخ نے مکتوب میڈیا کو بتایا ’’ہتیش کی پوسٹ اشتعال انگیز تھی اور مسلمانوں کو نشانہ بنایا گیا تھا۔ ہم صرف شکایت درج کروانے گئے تھے، لیکن پولیس نے مسلمانوں کے خلاف مقدمہ درج کر لیا۔‘‘
یہ بھی پڑھئے: بریلی میں حالات کشیدہ،پولیس کا لاٹھی چارج
سول رائٹس گروپس اور مسلم تنظیموں نے خبردار کیا ہے کہ پرامن مذہبی اظہار کو غیر متناسب طور پر نشانہ بنایا جا رہا ہے، جس سے ہندوستان بھر میں خوف میں اضافہ ہو رہا ہے اور اسلام دشمنی کو ہوا مل رہی ہے۔مقامی کارکنان اور حقوق کی تنظیموں نے بہیال میں ہونے والے تشدد کی مذمت کی ہے اور غیر جانبدارانہ تحقیقات کا مطالبہ کیا ہے۔ انہوں نے حکام پر زور دیا ہے کہ وہ مذہب سے بالاتر ہو کر تمام رہائشیوں کی حفاظت کریں اور صورتحال کے مزید بگڑنے سے روکیں۔بہیال کے وکیل محمد قاضی نے مکتب کو بتایا: "بے امنی اس وقت شروع ہوئی جب ایک دائیں بازو کے شخص نے سوشل میڈیا پوسٹ میں مسلمانوں کے خلاف توہین آمیز الفاظ استعمال کیے۔ غصے میں مبتلا برادری اپنی شکایات درج کروانے پولیس اسٹیشن گئی، لیکن پولیس نے صرف ان کے خلاف ہی مقدمہ درج کر لیا۔
یہ بھی پڑھئے: چوطرفہ تنقیدوں کے بعد چندر چُڈ صفائی دینے پر مجبور
قاضی نے مزید کہاکہ ’’ذلت آمیز طریقے سے، پولیس مسلمانوں کو گرفتار کر رہی ہے اور قصبے میں عوامی طور پر ان کی پریڈ کروا رہی ہے۔‘‘ تاہم سوشل میڈیا پر ایک ویڈیو میں ایک ہندو دائیں بازو کی تنظیم سے وابستہ ایک شخص رتھاورے کو دکھایا گیا ہے جو کھلم کھلا انتقامی تشدد کی ترغیب دیتے ہوئے کہہ رہا ہے:’’اگر انہوں نے ایک دکان توڑی تو تم چار دکانیں توڑ دینا۔ اگر انہوں نے چار گاڑیاں توڑیں تو تم آٹھ توڑ دینا اور اگر وہ پتھر لے کر آئے تو اینٹ سے جواب دو۔‘‘اس نے ہندوؤں سے بہیال میں جمع ہونے کی اپیل کرتے ہوئے اپنی بات کا اختتام ان الفاظ پر کیا’’پتھر کے ساتھ رہنا ہے تو پتھر بننا سیکھو اور دھرم بچانا ہے تو کٹر بننا سیکھو۔‘‘اس اشتعال انگیز ویڈیو کے بارے میں پوچھے جانے پر، ایس پی نے کہا، ’’ہم اس شخص کی شناخت کرنے اور اس کی ویڈیو کا جائزہ لینے کی کوشش کر رہے ہیں۔ اگر وہ فرقہ وارانہ ہم آہنگی میں خلل ڈالنے کا ذمہ دار پایا گیا تو اسے گرفتار کر لیا جائے گا۔‘‘