• Thu, 11 September, 2025
  • EPAPER

Inquilab Logo Happiest Places to Work

گیان واپی مسجد کے اے ایس آئی سروے کے انچارج افسر ریٹائر، نئی ذمہ داری دی گئی: رپورٹ

Updated: September 10, 2025, 10:06 PM IST | New Delhi

پروفیسر آلوک ترپاٹھی کا نام، جولائی ۲۰۲۳ء میں وارانسی کی ایک ضلعی عدالت کے حکم پر گیان واپی مسجد کا سروے کرنے والی ٹیم کی قیادت کرنے کیلئے سرخیوں میں آیا تھا۔

Gyanvapi Mosque and Alok Tripathi. Photo: INN
گیان واپی مسجد اور آلوک ترپاٹھی۔ تصویر: آئی این این

انگریزی روزنامے ’دی انڈین ایکسپریس‘ کی رپورٹ کے مطابق، آرکیالوجیکل سروے آف انڈیا (اے ایس آئی) کے سینئر افسر، جنہوں نے وارانسی کی گیان واپی مسجد کے سروے کی قیادت کی تھی، ریٹائر ہوگئے ہیں لیکن انہیں نئی ذمہ داری دی جائے گی۔ ۳۱ اگست کو ۶۰ سالہ پروفیسر آلوک ترپاٹھی، اے ایس آئی کے ایڈیشنل ڈائریکٹر جنرل (آرکیالوجی) کے عہدے سے ریٹائر ہوئے ہیں۔ تاہم، اب انہیں ایڈیشنل ڈائریکٹر جنرل (ریسرچ اینڈ ٹریننگ، کیپیسٹی بلڈنگ) کے طور پر مقرر کیا گیا ہے۔ ان کی تعیناتی میں ۳۰ نومبر تک توسیع کی گئی ہے جس کیلئے کابینہ کی تقرری کمیٹی سے منظوری ملنا باقی ہے۔

آسام یونیورسٹی کے پروفیسر ترپاٹھی کو پہلے جولائی اور اگست کے درمیان ۴ مختصر مدت کی توسیع دی گئی تھی۔ رپورٹ کے مطابق، مرکزی وزارتِ ثقافت کے حکام نے کہا کہ وہ مسلسل تعیناتی کے اہل ہیں کیونکہ آسام کی سلچر یونیورسٹی میں ریٹائرمنٹ کی عمر ۶۵ سال ہے، جبکہ اے ایس آئی میں یہ ۶۰ سال ہے۔ اے ایس آئی، جو وزارتِ ثقافت کے تحت کام کرتی ہے، نے ان کی تعیناتی میں توسیع کی تصدیق کی۔ تاہم، ’دی انڈین ایکسپریس‘ نے نوٹ کیا کہ اپریل ۲۰۲۳ء میں ترپاٹھی کے نئے عہدے کیلئے اے ایس آئی کے ایک اشتہار میں کہا گیا تھا کہ بھرتی کیلئے زیادہ سے زیادہ عمر کی حد ۵۶ سال ہے۔

یہ بھی پڑھئے: انتہائی دائیں بازو کے قوم پرست ہندوستان میں مسلمانوں کو نشانہ بنارہے ہیں: او آئی سی تنظیم

واضح رہے کہ ترپاٹھی کا نام، جولائی ۲۰۲۳ء میں وارانسی کی ایک ضلعی عدالت کے حکم پر گیان واپی مسجد کا سروے کرنے والی ٹیم کی قیادت کرنے کیلئے سرخیوں میں آیا تھا۔ عدالت نے اے ایس آئی کو ہندو درخواست گزاروں کے ان دعوؤں کی جانچ کرنے کی ہدایت دی تھی کہ مسجد کی جگہ پر کبھی ایک مندر تھا اور مسجد کے احاطے کے اندر پوجا کرنے کی اجازت ہونی چاہئے۔ جنوری ۲۰۲۴ء میں پیش کی گئی اپنی رپورٹ میں اے ایس آئی نے کہا کہ ”موجودہ عمارت کی تعمیر سے پہلے ایک ہندو مندر موجود تھا“ جس کیلئے اس نے تعمیراتی باقیات، نوشتہ جات اور مجسموں کا حوالہ دیا۔ یہ معاملہ ۲۰۲۲ء کے ایک سروے سے شروع ہوا جب مسجد کے وضو خانے میں ایک بیضوی شکل کی چیز دریافت ہوئی تھی جس کے متعلق ہندو درخواست گزاروں نے دعویٰ کیا کہ یہ ایک شیو لنگ ہے، جبکہ مسجد انتظامیہ نے کہا کہ یہ ایک غیر فعال فوارے کا حصہ ہے۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK