Inquilab Logo

نصف صدی سے تراویح پڑھارہے ہیں حافظ عبداللہ خان

Updated: March 28, 2024, 11:39 PM IST | Saeed Ahmed Khan | Mumbai

بھساول جامع مسجد کے امام کی خوش الحانی اورسوز سے انہیں حفظ ِ قرآن کریم کی تحریک ملی تھی۔ یہ اپنے علاقے کے پہلے حافظ قرآن ہیں۔

Hafiz Abdullah Khan Fateh Khan. Photo: INN
حافظ عبداللہ خان فتح خان۔ تصویر : آئی این این

ملئے نصف صدی سے تراویح میں قرآن کریم پڑھانے والے ۷۱؍سالہ حافظ عبداللہ خان فتح خان سے۔ امسال انہوں نے اپنے گاؤں اڑاود میں تڑوی برادری کے درمیان ۱۰؍روزہ تراویح میں قرآن کریم مکمل کیا۔ ان کے ساتھ ایک نابینا حافظ سلیم الدین بھی رہے۔ انہوں نے بھی ۱۰؍ رکعتیں پڑھائیں۔ یہاں وہ ۱۹۹۶ء سے پڑھا رہے ہیں۔ اس سے قبل اپنے گاؤں کی مسجد میں (جہاں آج بھی وہ امامت و خطابت کی ذمہ داری ادا کررہے ہیں) ۱۹۸۹ءسے ۱۹۹۵ء تک پڑھایاتھا۔
حافظ عبداللہ خان عمر کی ۷۱؍ویں بہار دیکھ رہے ہیں۔ اس عمر میں ضعف، قویٰ کی کمزوری اورخاص طور پر گھٹنوں میں درد کے باوجود رمضان المبارک سے قبل سے وہ خود کو تراویح کے لئے تیار کرلیتے ہیں، چنانچہ بلند حوصلہ اور قرآن پڑھنے کی راہ میں جسمانی کمزوری حائل نہیں ہوتی۔ حافظ عبداللہ خان اپنے گاؤں کے ہی نہیں علاقے کے بھی پہلے حافظ قرآن ہیں۔ 
حفظ قرآن کریم کے شوق کےتعلق سے حافظ عبداللہ خان نے بتایا کہ ’’۱۹۶۶ءمیں، میں نے ساتویں جماعت پاس کیا۔ اس کے بعد یہ سوچ رہا تھا کہ کیا کیا جائے، اسی اثناء میں تبلیغی جماعت میں جانا ہوا۔ ہماری جماعت کا قیام بھساول کی جامع مسجد میں ہوا۔

یہ بھی پڑھئے: بھیونڈی: پانی کی قلت کے خلاف زبردست احتجاج

اس وقت وہاں حافظ عبدالرحمٰن صاحب خطیب و امام تھے۔ ان کی آوازمیں بڑا درد اور بڑی مٹھاس تھی۔ نماز میں ان کی تلاوت سن کر میں بہت متاثر ہوا اور ذہن میں یہ خیال گزرا کہ میں بھی حافظ صاحب جیسا بنوں گا۔ حافظ عبدالرحمٰن کی تلاوت سے مجھے قرآن کریم حفظ کرنے کی تحریک ملی۔ ایک اہم بات یہ بھی کہ حافظ عبدالرحمٰن کی تلاوت سے مجھے تحریک ہی نہیں ملی بلکہ حفظ کرنے کے بعد ایک موقع ایسا بھی آیا جب حافظ عبدالرحمٰن بیمار پڑگئے تو مجھے یہاں ۴؍ماہ کے لئے امامت کا بھی شرف حاصل ہوا۔‘‘
 وہ بتاتے ہیں کہ ’’اس دور میں ہمارے علاقے میں دینی تعلیم کا کوئی نظم نہیں تھا اور نہ ہی بڑے ادارے تھے۔ گاؤں میں۱۰؍ ۱۵؍ بچوں نے حافظ محمدیوسف صاحب، جو ہمارے یہاں کے امام تھے، ان سے پڑھنا شروع کیا۔ اس وقت غربت تھی چنانچہ گاؤں کے الگ الگ گھروں سے کھانا لایا جاتا تھا۔ اس طرح میں نےتین سال میں قرآن کریم مکمل کیا اور ۱۹۷۵ء سے تراویح پڑھانا شروع کیا۔ اب تو اطراف میں اور بھڑگاؤں تعلقہ میں بھی کئی ادارے قائم ہوگئے ہیں جہاں بڑی تعداد میں طلبہ دینی علوم حاصل کررہے ہیں۔‘‘
 اپنے استاذ حافظ محمد یوسف صاحب کو یاد کرتے ہوئے حافظ عبداللہ خان نے کہا کہ ’’ تین سال قبل استاذ گرامی اللہ کو پیارے ہوگئے۔ اللہ پاک ان کی قبر کو جنت کا باغ بنائے۔ عسرت اورتنگی کے باوجود جس انداز میں انہوں نے ہمیں پڑھایا اور تربیت کی وہ ذہن میں نقش ہے۔ ان کی تربیت کا ہی نتیجہ ہے کہ آج تک نہ تو کبھی قرآن کریم سنانے کامعمول ترک ہوا اور نہ ہی تلاوت چھوٹی۔ روزانہ چلتے پھرتے دو تین پارہ کی تلاوت کرلیتا ہوں۔ ‘‘
 قرآن سے تعلق اوراہتمام کی برکت یہ ہےکہ اللہ پاک نے عسرت کو خوش حالی میں بدل دیا اور اولادوں کو بھی ترقی دی۔ انہیں اس بات کا قلق ہے کہ اولادوں میں کوئی حافظ یا عالم نہیں ہے مگر اطمینان اس پر ہے کہ سبھی بچے اعلیٰ تعلیم یافتہ ہیں اور ان کا ایک بیٹا اکل کوا کالج میں ٹیچر ہے۔
حافظ عبداللہ خان نے پہلی تراویح بود وڑکی جامع مسجد میں پڑھائی تھی، یہ ۱۹۷۵ء کی بات ہے۔ اس کے بعد بھساول کی ہردا والی مسجد میں، شیواجی نگرجلگاؤں میں، شیندورنی میں، لوہارا میں، جامنیر میں، اپنے محلے کی تکیہ مسجد میں اور دیگر مقامات پر پڑھائی۔ نئے حفاظ کے تعلق سے حافظ عبداللہ کا کہنا تھا کہ ’’یومیہ ایک منزل تلاوت کا جو معمول لکھا گیا ہے اسے لازم کرلیں۔ اگر تلاوت کا یومیہ معمول رہے گا توقرآن کریم سینے میں محفوظ رہے گا ورنہ بے اعتنائی پر اللہ پاک یہ دولت واپس لے لیں گے یعنی قرآن کریم یاد رہنا، خدانخواستہ ،مشکل ہوجائے گا۔ ‘‘ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK