حماس کا مؤقف ہے کہ اس کا مستقل طور پر ہتھیار ڈالنا، صرف فلسطینی ریاست کے قیام پر مرکوز ایک جامع سیاسی تصفیے کے ذریعے ہی ممکن ہو سکتا ہے۔
EPAPER
Updated: December 08, 2025, 6:09 PM IST | Gaza/New York/Tel Aviv/Doha
حماس کا مؤقف ہے کہ اس کا مستقل طور پر ہتھیار ڈالنا، صرف فلسطینی ریاست کے قیام پر مرکوز ایک جامع سیاسی تصفیے کے ذریعے ہی ممکن ہو سکتا ہے۔
حماس نے اشارہ دیا ہے کہ وہ غزہ میں امریکی ثالثی میں ہوئی جنگ بندی کے دوسرے مرحلے کے دوران اپنے ہتھیاروں کو ”منجمد کرنے یا ذخیرہ کرنے“ پر گفتگو کرنے کیلئے تیار ہے، حالانکہ ایک بین الاقوامی استحکامی فورس کے کردار اور مینڈیٹ پر شدید اختلافات ابھی بھی برقرار ہیں۔ اتوار کو قطر میں ایسوسی ایٹڈ پریس سے گفتگو کرتے ہوئے حماس کے سینئر عہدیدار باسم نعیم نے کہا کہ فلسطینی مسلح گروپ ان انتظامات کے بارے میں ”انتہائی کھلے ذہن“ کا حامل ہے جو جنگ بندی کے دوران اس کے باقی ماندہ ہتھیاروں کو غیر فعال رکھیں گے۔ انہوں نے کہا کہ ”ہم جنگ بندی کے دوران ہتھیاروں کو استعمال نہ کرنے کی فلسطینی ضمانتوں کے ساتھ، ان کو منجمد کرنے یا ذخیرہ کرنے یا نیچے رکھنے کے متعلق گفتگو کرسکتے ہیں۔“ واضح رہے کہ موجودہ معاہدے کے تحت حماس کو غزہ کی غیر عسکری کاری کے حصے کے طور پر آزادانہ نگرانی میں غیر مسلح ہونا ہوگا۔
نعیم نے اصرار کیا کہ غزہ میں کسی بھی بین الاقوامی موجودگی کو محدود ہونا چاہئے۔ انہوں نے کہا کہ حماس جنگ بندی کی خلاف ورزیوں کی نگرانی کیلئے سرحدوں کے قریب تعینات اقوام متحدہ کی فورس کو قبول کرے گی ”لیکن ہم ان افواج کو فلسطینی علاقے کے اندر کوئی موجودگی اور اختیار قبول نہیں کریں گے۔“
اسرائیل کے مطالبات اور مذاکرات میں تناؤ
دوسری طرف، اسرائیلی وزیر اعظم بنجامن نیتن یاہو نے دعویٰ کیا کہ اسرائیل جنگ بندی معاہدے کے دوسرے مرحلے میں داخل ہونے کے ”بہت قریب“ ہے، جو حماس کی فوجی صلاحیتوں کو ختم کرنے پر مرکوز ہے۔ ابھی تک یہ واضح نہیں ہے کہ آیا حماس کی یہ تجویز مکمل ہتھیار ڈالنے کے اسرائیل کے مطالبے کو پورا کرے گی۔
یہ بھی پڑھئے: اسرائیل نے اپنی بین الاقوامی شبیہ کی بہتری کیلئے بجٹ میں ۷۲۵؍ ملین ڈالر مختص کئے
غزہ جنگ بندی کے دوسرے مرحلے مذاکرات میں تیزی سے تناؤ بڑھ رہا ہے۔ دوحہ فورم میں سنیچر کے دن قطر، مصر اور ناروے نے خبردار کیا کہ جنگ بندی ایک ”نازک موڑ“ پر ہے۔ دریں اثناء، جنگ بندی کے باوجود غزہ میں اسرائیلی حملے جاری ہیں۔ فلسطینی اتھارٹی کے مطابق، ۱۰ اکتوبر سے اسرائیل نے ۵۹۱ خلاف ورزیاں کی ہیں جن میں ۳۵۷ فلسطینی جاں بحق اور ۹۰۰ سے زیادہ فلسطینی زخمی ہوئے ہیں۔ ان خلاف ورزیوں کے واقعات میں توپ خانے کی فائرنگ، ڈرون حملے، عارضی یلو لائن عبور کرنا اور گھروں اور شہری ڈھانچوں کی بڑے پیمانے پر مسماری شامل ہے۔
توقع کی جا رہی ہے کہ نیتن یاہو دوسرے مرحلے کے نفاذ پر تبادلہ خیال کیلئے اس ماہ کے آخر میں امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ سے ملاقات کریں گے۔ حماس کا مؤقف ہے کہ اس کا مستقل طور پر ہتھیار ڈالنا، صرف فلسطینی ریاست کے قیام پر مرکوز ایک جامع سیاسی تصفیے کے ذریعے ہی ممکن ہو سکتا ہے۔
یہ بھی پڑھئے: غزہ امن معاہدہ کوبچانے کیلئے مصر اور قطر کوشاں
امریکہ، قطر اور اسرائیل کی نیویارک میں خفیہ سہ فریقی میٹنگ
ایگزیوس کی ایک رپورٹ کے مطابق، امریکہ، اسرائیل اور قطر نے اتوار کو نیویارک میں ایک خفیہ اعلیٰ سطحی سہ فریقی میٹنگ کا انعقاد کیا۔ اطلاعات کے مطابق، وہائٹ ہاؤس کے مشرقی وسطیٰ کیلئے ایلچی اسٹیو وٹکوف نے اس میٹنگ کی میزبانی کی، جس میں موساد کے سربراہ ڈیوڈ بارنیہ نے اسرائیل کی نمائندگی کی اور ایک سینئر قطری عہدیدار نے شرکت کی۔ واشنگٹن نے ابھی تک ان مذاکرات کی تصدیق نہیں کی ہے۔
میٹنگ میں امریکی صدر ڈونالڈ کے پیش کردہ غزہ امن منصوبے کے نفاذ پر توجہ مرکوز کی گئی، جس کی ثالثی میں قطر اور مصر نے اہم کردار ادا کیا تھا۔ دونوں ممالک نے حال ہی میں غزہ سے مکمل اسرائیلی انخلا اور ایک بین الاقوامی استحکامی فورس کی تیزی سے تعیناتی پر زور دیا ہے۔ انہوں نے دلیل دی ہے کہ اس کے بغیر جنگ بندی برقرار نہیں رہ سکتی۔
یہ بھی پڑھئے: جنگ زدہ فلسطین اور شام فیفا عرب کپ کے کوارٹر فائنل میں داخل
۹ ستمبر کو دوحہ میں ہونے والے متنازع اسرائیلی فضائی حملے کے بعد دونوں ممالک کے درمیان کشیدگی برقرار ہے۔ اس حملے میں حماس کے مذاکرات کاروں کو نشانہ بنانے کی کوشش کی گئی تھی لیکن ان کے بجائے ۶ قطری شہری ہلاک ہوگئے تھے۔ اس حملے پر صدر ٹرمپ نے اسرائیل کی غیر معمولی عوامی سرزنش کی تھی۔ ایگزیوس نے رپورٹ کیا کہ نیتن یاہو نے بعد میں ٹرمپ کے اصرار پر قطری وزیر اعظم سے معافی مانگی تھی۔