Updated: August 07, 2025, 10:04 PM IST
| New Delhi
ہندوستان میں جنگلات کی کٹائی ،توسیع کی بہ نسبت ۱۸؍ گنا زیادہ ہے، جہاں ۵۶؍ اعشاریہ ۳؍مربع کلومیٹر جنگلات بڑھے وہیں ۱۰۳۲؍ اعشاریہ ۸۹؍مربع کلومیٹر کٹائی کا شکار ہوئےیہ خلاصہ آئی آئی ٹی ممبئی نے کیا ہے، جنگلات کی کٹائی میں تامل ناڈو اور مغربی بنگال سرفہرست ہیں۔
انڈین انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی ممبئی (آئی آئی ٹی بمبئی) کی ایک نئی تحقیق کے مطابق، ہندوستان نے ۲۰۱۵ءسے ۲۰۱۹ء کے درمیان ہرایک مربع کلومیٹر نئے جنگل کے مقابلے میں۱۸؍ مربع کلومیٹر رقبہ کھویا ہے۔آئی آئی ٹی بمبئی کے پروفیسر راج رام سنکرن کی قیادت میں، ڈاکٹر واسو ستیاکمار (ساسترا ڈیمڈ یونیورسٹی) اور شردھرن گوتم کے اشتراک سے کی گئی اس تحقیق میں، اس پانچ سالہ عرصے میں جنگلاتی رقبے کی تبدیلیوں کا جائزہ لینے کے لیے کوپرنیکس گلوبل لینڈ سروس کے ڈیجیٹل جنگلاتی نقشوں کا استعمال کیا گیا۔تحقیق کے مطابق اس عرصے میں ملک کے تمام صوبوں میں جنگلات کا خالص نقصان درج ہوا۔ جہاں ۵۶؍ اعشاریہ ۳؍مربع کلومیٹر جنگلات بڑھے وہیں ۱۰۳۲؍ اعشاریہ ۸۹؍مربع کلومیٹر کٹائی کا شکار ہوئے، جس میں تقریباً آدھا نقصان صرف تمل ناڈو اور مغربی بنگال کی مشترکہ کٹائی کا نتیجہ تھا۔اس تحقیق کا ایک اہم ترین مشاہدہ نئے جنگلات کے معیار سے متعلق تھا۔ نئے جنگلات کا نصف سے زیادہ حصہ چھوٹے ٹکڑوں پر مشتمل تھا، جس میں محققین کے الفاظ میں ’’ساختی ربط‘‘کی کمی تھی۔ یہ ربط حیاتیاتی تنوع کو برقرار رکھنے والے مسلسل سبز علاقے کو کہتے ہیں۔
یہ بھی پڑھئے: اترکاشی : تباہ شدہ دھرالی میں راحت رسانی کے کام میں شدید مشکلات کا سامنا
ڈاکٹر ستیاکمار نے کہا: ’’ہمارے نتائج واضح طور پر دکھاتے ہیں کہ ۲۰۱۵ءسے ۲۰۱۹ء کے دوران شامل ہونے والے زیادہ تر نئے جنگلات چھوٹے جزیروں، انتہائی بکھرے ہوئے اور ماحولیاتی طور پر غیر محفوظ ٹکڑوں کی شکل میں تھے۔ موجودہ مقدار پر مبنی جنگل کاری کے طریقہ کار سے آگے بڑھ کر، جنگلات کی منصوبہ بندی میں واضح طور پر ساختی ربط کو شامل کرنے کی اشد ضرورت ہے۔‘‘ایسا ربط ماحولیاتی نظام کی مضبوطی اور بحالی کے لیے نہایت اہم ہے۔ وسیع اور مسلسل جنگلی علاقے متنوع جنگلی حیات کی پرورش کرتے، ماحولیاتی توازن برقرار رکھتے اور قدرتی اور انسانی دونوں طرح کے خلل کے خلاف زیادہ مزاحمت رکھتے ہیں۔ اس کے برعکس، بکھرے ہوئے جنگلات جانوروں کی نقل و حرکت اور بقا میں رکاوٹ بنتے ہیں۔
رپورٹ کے مطابق، شیر جیسی انواع، جنہیں شکار اور افزائش نسل کے لیے وسیع علاقے درکار ہوتے ہیں، بکھرے جنگلات میں زندہ رہنے کے لیے جدوجہد کرتی ہیں، جس سے انسانوں اور جنگلی حیات کے درمیان تصادم کے امکانات بڑھ جاتے ہیں۔آندھرا پردیش، تمل ناڈو، کرناٹک اور راجستھان نے اس عرصے میں کل ۵۶؍ اعشاریہ ۳؍مربع کلومیٹر میں سے تقریباً نصف نئے جنگلات شامل کیے۔ لیکن یہ فائدہ خصوصاً تمل ناڈو اور مغربی بنگال میں ہونے والی کٹائی سے پورا ہو گیا، جو کل کٹے ہوئے جنگلات کے تقریباً۵۰؍ فیصد کے ذمہ دار تھے۔تحقیقی ٹیم نے ملک بھر میں ریاستی اور قومی سطح پر جنگلاتی ربط کا نقشہ بنانے اور نگرانی کرنے کے لیے ریموٹ سینسنگ ڈیٹا اور اوپن سورس ٹولز استعمال کرتے ہوئے ایک نیا فریم ورک تجویز کیا ہے۔اس تحقیق کے نتائج ہندوستانی جنگلاتی سروے کی رپورٹس سے مختلف ہیں، جو حالیہ برسوں میں جنگلاتی رقبے میں مجموعی اضافہ درج کرتی رہی ہیں۔لیکن اس کی وجہ یہ ہے کہ ایف ایس آئی اور سی جی ایل ایس مختلف تعریفوں اور ڈیٹا سیٹس کا استعمال کرتے ہیں۔ایف ایس آئی ۲۳؍ اعشاریہ ۵؍ میٹر ریزولوشن والی سیٹلائٹ امیجری استعمال کرتے ہوئے، کم از کم۱۰؍ فیصد درختوں کے سائبان والے علاقوں کو جنگل قرار دیتا ہے۔ سی جی ایل ایس ڈیٹا سیٹ میں۱۵؍ فیصد سائبان کی حد استعمال ہوتی ہے اور اس کا ریزولوشن۱۰۰؍ میٹر ہے۔ڈاکٹر ستیاکمار نے وضاحت کی ’’چونکہ ایف ایس آئی رپورٹ میں جنگلاتی ربط کے جائزے شامل نہیں ہوتے، اس لیے براہ راست موازنہ ممکن نہیں۔ تاہم، ہمارا ڈیٹا ذریعہ عالمی سطح پر۸۵؍ فیصد سے زیادہ درست تسلیم شدہ ہے، جو ہمارے ربط کے نتائج کو قابل اعتماد بناتا ہے۔ اگر ایف ایس آئی کا ڈیٹا جی آئی ایس کے مطابق فارمیٹ میں دستیاب ہو، تو ہمارا طریقہ کار اس پر بآسانی نافذ کیا جا سکتا ہے۔‘‘
یہ بھی پڑھئے: بچپن کے دوستوں کا گروپ اترکاشی کی سیر کیلئے گیا اور طوفان میں پھنس گیا
یہ تحقیق ہندوستان کے ماحولیاتی بحران کی نشاندہی کرنے والے شواہد میں اضافہ کرتی ہے۔۲۰۲۴ء کے نیچر کنزرویشن انڈیکس کے مطابق، ہندوستان۱۸۰؍ ممالک میں۱۷۶؍ ویں نمبر پر ہے، جس کا اسکور صرف ۴۵؍ اعشاریہ ۵؍ ہے۔ اس طرح حیاتیاتی تنوع کے تحفظ کے حوالے سے یہ دنیا کے بدترین پانچ ممالک میں شامل ہے۔ رپورٹ میں تحفظ کے ناکافی قوانین کو بھی ایک اہم وجہ قرار دیا گیا ہے۔آئی آئی ٹی کی تحقیق اور این سی آئی کی رپورٹ مل کر ایک واضح اشارہ دیتی ہیں کہ ہندوستان کے جنگلات کاغذوں پر تو پھیل رہے ہیں، لیکن زمینی حقیقت میں حیاتیاتی تنوع کیلئے خطرہ بڑھ رہا ہے۔