Inquilab Logo

امریکہ میں ہندوستانی طالب علم اکل دھون کی موت ہائیپوتھرمیا سے ہوئی تھی

Updated: February 23, 2024, 3:41 PM IST | Washington

امریکہ کے چیمپئن کاؤنٹی کورونر کے مطابق امریکہ کی الینوائے یونیورسٹی کے ۱۸؍ سالہ ہندوستانی طالب علم اکل دھون، جو ۲۰؍جنوری کو یونیورسٹی کے قریب مردہ حالت میں پائے گئے تھے، کی موت ہائیپوتھرمیا کے سبب ہوئی تھی۔ ایک رپورٹ کے مطابق الکوحل کے شدید نشے اور کافی دیر تک کم درجہ حرارت میں کھلی ہوا میں رہنا دھون کی موت کا سبب بنا تھا۔ اکل دھون کے والدین نے کہا کہ پولیس نے اچھے طریقے سے علاقے کا سرچ آپریشن نہیں کیا تھا اور سوال قائم کیا کہ دھون کی لاش گمشدہ ہونے کے ۱۰؍ گھنٹے بعد کیوں تلاش کی گئی ؟

Akhul Dhawan. Photo:INN
اکل دھون۔ تصویر: آئی این این

مقامی میڈیا رپورٹ کے مطابق ہندوستانی طالب علم اکل دھون، جو ۲۰؍ جنوری کو اپنی یونیورسٹی کے قریب مردہ حالت میں پائے گئے تھے،کی موت اس کلب کے قریب ہوئی تھی جس میں رات کے وقت ان کے دوستوں کے ساتھ انہیں داخل ہونے کی اجازت نہیں دی گئی تھی۔چیمپئن کاؤنٹی کورونرکے دفتر نے ۲۰؍ فروری کوایک پریس ریلیز کے دوران کہا کہ ۱۸؍ سالہ اکل دھون،امریکہ کی الینوائے یونیورسٹی کے فرسٹ ایئر کے طالب علم تھے، کی موت ہائیپوتھرمیا(مرض جس میں جسم کا درجۂ حرارت نارمل درجۂ حرارت سے کم ہو جاتا ہے)کے سبب ہوئی تھی۔ دی کاناس سٹی اسٹار کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ دھون اپنی موت والے دن اپنے دوستوں کے ساتھکیمپس کے قریب موجود کلب میں شراب پی کر گیا تھا۔سی سی ٹی وی کے ویڈیو کے مطابق وہ اور اس کے دوستوں اس دن وہ کلب گئے تھے لیکن تقریباً ۱۱؍ بجکر ۳۰؍ منٹ کے قریب انہیں کلب کے اندر انٹری نہیں دی گئی تھی تو انہوں نے کلب میں دوبارہ داخل ہونے کی کوشش کی تھی۔

یہ بھی پڑھئے: امریکہ: ہندوستانی اور ہند نژاد شہریوں کے قتل کا سلسلہ دراز، ہوٹل مالک کا گولی مار کر قتل

اخبار نے تفتیش کاروں کے حوالے سے لکھا ہے کہ دھون نے متعدد مرتبہ کلب میں داخل ہونے کی کوشش کی تھی لیکن اسٹاف نے بارہا اسے داخل ہونے سے منع کیا تھا۔بعد میں اس نے ۲؍ گاڑیوں کو ٹھکرا دیا جواس کیلئے بلائی گئی تھیں۔ رات پھر دھون کے دوستوں نے اسے کال کیا لیکن اس نے ان کے فون کاجواب نہیں دیا تو اس کے دوستوں میں سے ایک رات میں ایک بجکر ۲۳؍ منٹ کے قریب کیمپس پولیس کے پاس پہنچا۔ پولیس نے کہا کہ انہوں نے احاطے کا سرچ آپریشن کیا اور اس کے دوستوں سے بھی رابطہ کیا لیکن وہ اسے تلاش نہیں کر سکے۔

دوسرے دن صبح ۱۱؍ بجے اسے تلاش کرلیا گیا تھا۔پولیس کو اس کی لاش کلب سے ۴؍ منٹ کی دوری پر  ایک عمارت کے پیچھے کانکریٹ کی سیڑھیوں پر ملی۔اس وقت علاقے کا درجہ حرارت منفی ۲؍ ڈگری سیلسیس تک پہنچ گیا تھا۔کاناس سٹی اسٹار نے رپورٹ کیا ہے کہ کورونرکے دفتر کے مطابق جائے وقوع پر ہی دھون کو مردہ قرار دے دیا گیا تھا۔الکوحل کے شدید نشے اور سرد درجہ حرارت میں دیر تک کھلی ہوا میں رہنےکے سبب اس کی موت ہوئی تھی۔دھون کے خاندان کی جانب سے لکھے گئے اوپن لیٹر کے مطابق اس کے اہل خانہ کا ماننا ہے کہ پولیس نے اچھے طریقے سے احاطے کا سرچ آپریشن نہیں کیا تھا۔ انہوں نے اپنے خط میں مزید لکھا ہے کہ ہمارا یہ سوال ہے کہ کیوںاکل کی لاش ۱۰؍ گھنٹے بعد تلاش کی گئی۔تب ہی کیوں اسےتلاش کرنے کی کوشش کی گئی جب اس کے گمشدہ ہونے کی بازگشت تھی۔اگر تبھی اسے ڈھونڈے کی کوشش کی گئی ہوتی تو شاید آج وہ زندہ ہوتا۔وہ جگہ جہاں سے وہ گمشدہ ہواتھا اور وہ جگہ جہاں سے اس کی لاش ملی ہے۲۰۰؍ فٹ سے بھی کم فاصلےپر ہے۔انہوں نے یہ بھی الزام عائد کیا کہ یونیورسٹی نے موت سے پہلے انہیں کسی بھی قسم کے خدشات سےآگاہ نہیں کیا تھا۔ والدین نے مزید لکھا ہے کہ والدین کے طور پر ہم نے کبھی یہ سوچا بھی نہیںتھا کہ ہمیں ایسی خبر ملے گی۔ ہم مکمل طور پر تباہ ہو گئے ہیں۔ ہم نے اپنے خاندان کے ایک بہت اہم فرد کو کھو دیاہے ہم کبھی ویسے نہیں رہ پائیں گے جیسے پہلے رہتے تھے۔
کیمپس پولیس کے ترجمان نے کہا ہے کہ یونیورسٹی کی کمیونٹی اور محکمہ پولیس اس خبر کے نتیجے میں دل برداشتہ ہیں۔ تاہم، ہم جانتے ہیں کہ ہمیں اتنا غم نہیں ہے جتنا کہ دھون کے اہل خانہ کو ہے۔ ہماری ان سے تعزیت ہے۔
ترجمان نے مزید کہا ہے کہ ہمارے لئے ہمارے طلبہ اور کمیونٹی کے ممبران کی حفاظت اولین ترجیح ہے۔ جب ہمیں اپنے کسی طالب علم کی فلاح و بہود کیلئے طلب کیا جاتا ہے تو ہمارے افسران اور غیر اپنے طلبہ کی فلاح وبہود کیلئے بلایا جاتا ہے تو آفیسرس اور دیگر عملہ فوری جتنی جلدی ممکن ہو سکے اتنی جلدی حاضر ہونے کی کوشش کرتے ہیں۔ان کی کارروائی بلانے والے کی طرف سے پیش کردہ یا دریافت ہونے والی معلومات پر مبنی ہوتے ہیں۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK