تہران میں ہندوستانی سفارت خانہ نے شہریوں سے ایک ٹیلی گرام لنک کے ذریعے رابطے میں رہنے اور ہیلپ لائن نمبروں کا استعمال کرنے کی درخواست کی ہے۔ واضح رہے کہ ایران میں ۱۵۰۰؍ سے زائد ہندوستانی طلبہ ہیں جن میں سے زیادہ تر جموں و کشمیر سے تعلق رکھتے ہیں۔
EPAPER
Updated: June 16, 2025, 6:10 PM IST | New Delhi
تہران میں ہندوستانی سفارت خانہ نے شہریوں سے ایک ٹیلی گرام لنک کے ذریعے رابطے میں رہنے اور ہیلپ لائن نمبروں کا استعمال کرنے کی درخواست کی ہے۔ واضح رہے کہ ایران میں ۱۵۰۰؍ سے زائد ہندوستانی طلبہ ہیں جن میں سے زیادہ تر جموں و کشمیر سے تعلق رکھتے ہیں۔
ایران اور اسرائیل کے درمیان بڑھتی ہوئی فوجی کشیدگی کے دوران، ہندوستانی وزارت خارجہ نے پیر کو ایک پریس ریلیز میں بتایا کہ ایران میں موجود کچھ ہندوستانی طلبہ کو محفوظ مقامات پر منتقل کیا جارہا ہے۔ وزارت نے ایک بیان میں کہا کہ تہران میں ہندوستانی سفارت خانہ، سیکورٹی صورتحال کی مسلسل نگرانی کر رہا ہے اور وہاں موجود ہندوستانی طلبہ کی حفاظت کو یقینی بنانے کیلئے ان سے رابطے میں ہے۔
وزارت کے بیان میں مزید کہا گیا کہ دیگر ممکنہ اختیارات بشمول انخلاء پر بھی غور کیا جا رہا ہے۔ سفارت خانہ علیحدہ طور پر کمیونٹی لیڈران کے ساتھ ہندوستانی شہریوں کی فلاح و بہبود اور حفاظت کے حوالے سے رابطے میں ہے۔ سفارت خانہ نے شہریوں سے ایک ٹیلی گرام لنک کے ذریعے رابطے میں رہنے اور ہیلپ لائن نمبروں کا استعمال کرنے کی درخواست کی ہے۔ واضح رہے کہ ایران میں ۱۵۰۰؍ سے زائد ہندوستانی طلبہ ہیں جن میں سے زیادہ تر جموں و کشمیر سے تعلق رکھتے ہیں۔
یہ بھی پڑھئے: سیکڑوں ہندوستانی طلبہ ایران میں پھنس گئے، مودی سرکار سے اُن کے انخلاء کا مطالبہ
عمر عبداللہ کی مداخلت
جموں و کشمیر کے وزیر اعلیٰ عمر عبداللہ نے ۱۵؍ جون کو وزیر خارجہ ایس جے شنکر سے بات کی اور ایران میں پھنسے کشمیری طلبہ کی حفاظت کیلئے فوری اقدامات کی درخواست کی۔ جموں و کشمیر اسٹوڈنٹس ایسوسی ایشن کے قومی کنوینر ناصر خوہامی نے بتایا کہ تہران میں ایک ہاسٹل پر اسرائیلی حملے میں دو کشمیری طلبہ کو معمولی زخم آئے ہیں۔
واضح رہے کہ جمعہ کو اسرائیل نے ایرانی دارالحکومت اور "ایٹمی اہداف" پر حملے کئے تاکہ تہران کے ایٹمی پروگرام کو روکا جا سکے۔ ایران نے بھی اسرائیل پر جوابی حملے میں سینکڑوں میزائل داغے۔ ان حملوں کے بعد مشرق وسطیٰ کے حالات دھماکہ خیز ہوگئے ہیں اور تنازع کے وسیع تر پھیلاؤ کے خدشات میں اضافہ ہوا ہے۔