ایران اور اسرائیل کے درمیان شدت اختیار کرتے تنازع کے باعث ہندوستان نے ایران کو چائے کی برآمدات روک دی ہیں۔
EPAPER
Updated: June 20, 2025, 9:03 PM IST | Tehran
ایران اور اسرائیل کے درمیان شدت اختیار کرتے تنازع کے باعث ہندوستان نے ایران کو چائے کی برآمدات روک دی ہیں۔
ہندوستان نے ایران کو چائے کی برآمدات معطل کر دیں، اسرائیل سے جاری تنازع کے سبب کاروباری روابط متاثر
ایران اور اسرائیل کے درمیان شدت اختیار کرتے تنازع کے باعث ہندوستان نے ایران کو چائے کی برآمدات روک دی ہیں۔ چائے برآمد کرنے والے تاجروں کا کہنا ہے کہ ایران میں ٹیلی کمیونی کیشن کے نظام میں خلل اور کاروباری سرگرمیوں میں وسیع پیمانے پر تعطل کے باعث ایرانی خریداروں سے رابطہ قائم کرنا مشکل ہو گیا ہے۔ اس کا اثر۱۰۰؍ سے۱۵۰؍ کروڑ روپے مالیت کی اعلیٰ معیار کی آرتھوڈوکس چائے کی برآمدات پر پڑا ہے، جن کے معاہدے پہلے ہی طے پا چکے تھے۔ ایشین ٹی کمپنی کے ڈائریکٹر موہت اگروال نے بتایا:’’جنگ شروع ہوئے ایک ہفتہ ہو چکا ہے۔ پچھلے ایک ہفتے سے ہماری تمام شپمنٹس روک دی گئی ہیں کیونکہ ہم اپنے خریداروں سے رابطہ نہیں کر پا رہے۔ یہ وہ وقت ہے جب ایران اعلیٰ درجے کی ’سیکنڈ فلش‘ چائے خریدتا ہے۔ ہمارے پاس فی الحال صرف انتظار کرنے کے سوا کوئی چارہ نہیں۔ ‘‘
یاد رہے کہ مشرق وسطیٰ کی مجموعی منڈی جس میں ایران، عراق، قطر، سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات شامل ہیں ہر سال ہندوستان سے تقریباً۹؍ کروڑ کلوگرام چائے خریدتی ہے، جوہندوستان چائے کی کل برآمدات کا تقریباً۳۵؍ فیصد ہے۔
آسٹریلیا نے ایران میں بگڑتی صورتحال کے باعث تہران میں اپنا سفارت خانے کا آپریشن معطل کردیا
آسٹریلوی وزیر خارجہ پینی وونگ۔ تصویر: آئی این این
اسرائیل اور ایران کے ایک دوسرے پر حملے بڑھ رہے ہیں۔ ایسی صورتحال میں آسٹریلیا نے اعلان کیا کہ اس نے ایران کی جوہری تنصیبات پر اسرائیلی فضائی حملوں میں اضافے کے درمیان، بڑھتے ہوئے سیکوریٹی خدشات کے پیش نظر تہران میں اپنے سفارت خانے کی کارروائیاں روک دی ہیں۔ وزیر خارجہ پینی وونگ نے ایک بیان میں کہا کہ’’آسٹریلوی حکومت نے تمام آسٹریلوی اہلکاروں اور زیر کفالت افراد کو ایران میں بگڑتے ہوئے سیکوریٹی ماحول کے بارے میں مشورے کی بنیاد پر ملک چھوڑنے کی ہدایت کی ہے۔ ‘‘
ایران نے امریکہ کے ساتھ مذاکرات کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ اس کے مجرموں کے ساتھیوں کے ساتھ بات چیت کرنے کیلئے کچھ نہیں ہے
ڈونالڈ ٹرمپ اور عباس عراقچی۔ تصویر: آئی این این۔
ایران نے جمعہ کو اپنے دفاعی مؤقف کو مزید مضبوط کرتے ہوئے وزیر اعظم اور وزیر خارجہ کے بیانات جاری کئے ہیں۔ بیانات میں اصرار کیا گیا ہے کہ جنگ بندی کے مذاکرات صرف اس وقت ممکن ہیں جب اسرائیل اپنی بلاجواز جارحیت کو روک دے۔ میڈیا رپورٹس کے برعکس، جن میں کہا گیا تھا کہ تہران نے واشنگٹن سے پس پردہ رابطے کئے ہیں تاکہ دشمنی کو فوری طور پر ختم کیا جا سکے، ایرانی صدر مسعود پزیشکیان نے کہا کہ موجودہ جنگ کو ختم کرنے کا واحد راستہ یہ ہے کہ اسرائیل بلا شرط اپنے فضائی حملے بند کرے۔ ایرانی میڈیا کے مطابق انہوں نے ایک بیان میں کہا ہے کہ’’ہم نے ہمیشہ امن اور استحکام کی پیروی کی ہے۔ ‘‘
علاوہ ازیں، ایرانی وزیر خارجہ عباس عراقچی نے کہا ہے کہ تہران کو امریکہ کی جانب سے مذاکرات کیلئے متعدد ’’سنجیدہ‘‘ پیغامات موصول ہوئے ہیں لیکن ایران کے پاس واشنگٹن کو ’’کچھ کہنے کو نہیں ‘‘ کیونکہ وہ اسرائیل کے ساتھ ان ’’جرائم میں برابر کا شریک‘‘ ہے۔ عراقچی نے زور دیا کہ جب تک اسرائیلی حملے جاری رہیں گے، کسی سے کوئی بات چیت نہیں ہوگی۔
امریکہ اور جرمنی سے ہتھیاروں سے بھرے ۱۴؍ کارگو طیارے اسرائیل میں اترے
تصویر: آئی این این
اسرائیلی وزارت نے جمعرات کو بتایا کہ امریکہ اور جرمنی سے ۱۴؍ فوجی مال بردار طیارے، جن میں فوج کی معاونت کیلئے ساز و سامان اور رسد موجود ہے، اسرائیل پہنچ گئے ہیں۔ وزارت نے ایک بیان میں کہا کہ یہ طیارے فضائی اور بحری پلوں کا حصہ ہیں جنہیں اسرائیل نے ایران کے خلاف ۱۳؍جون کو شروع ہونے والے حملے کے بعد سے چلانا شروع کیا ہے۔ وزارت نے مزید کہا کہ یہ سامان فوج کی’’عملی تیاری‘‘ کو سہارا دینے کیلئے بھیجا گیا ہے، اور یہ ان۸۰۰؍ سے زائد فوجی کارگو طیاروں کے علاوہ ہے جو۷؍ اکتوبر۲۰۲۳ء سے غزہ کی پٹی پر جاری نسل کش جنگ کے آغاز سے اب تک اسرائیل پہنچ چکے ہیں۔ واضح رہے کہ وزارت نے بھیجے گئے ساز و سامان کی نوعیت ظاہر نہیں کی۔
۲۴؍سے۴۸؍ گھنٹوں کے اندر امریکہ کی جنگ میں شمولیت کا فیصلہ ہو جائے گا: اسرائیلی عہدیدار
ڈونالڈ ٹرمپ۔ تصویر: آئی این این
ٹائمز آف اسرائیل کے مطابق جمعرات کو ایک اسرائیلی عہدیدار نے کہا ہے کہ تل ابیب کو اب بھی توقع ہے کہ امریکہ۲۴؍ سے۴۸؍ گھنٹوں کے اندر ایران کے خلاف حملوں میں شامل ہو جائے گا۔ ایک اخبار سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا توقع ہے کہ وہ شامل ہوں گے، لیکن کوئی بھی ان پر دباؤ نہیں ڈال رہا ہے۔ انہیں اپنا فیصلہ خود کرنا ہوگا۔ ادھر ذرائع نے اسرائیلی براڈکاسٹنگ کارپوریشن کو بتایا کہ تہران اور تل ابیب کے درمیان جنگ دو سے تین ہفتے جاری رہے گی اور اگر امریکہ بھی اس میں شامل ہوا تو یہ چند دن ہی چل سکتا ہے۔
امریکہ ہماری مدد کر رہا ہے
قبل ازیں اسرائیلی وزیر اعظم بنجامن نیتن یاہو نے کہا کہ اسرائیل امریکی صدر ٹرمپ کے کسی بھی فیصلے کی حمایت کرے گا۔ نیتن یاہو نے ٹرمپ کو یہودی عوام اور ریاست اسرائیل کا دوست قرار دیا ہے۔ نیتن یاہو نے یہ کہا کہ ٹرمپ ایران کے خلاف اسرائیلی کارروائیوں کی حمایت کرتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ امریکہ ہماری مدد کر رہا ہے اور ہماری فضائی حدود کی حفاظت میں حصہ لے رہا ہے۔ اس کے پائلٹ اسرائیلی طیاروں کو فضا میں لے جا رہے ہیں۔
ایران کی مسلسل جوابی کارروائی کے باعث اسرائیل کی جانب سے ایرانی میزائلوں کو روکنے کی صلاحیت میں کمی آ رہی ہے:اسرائیلی انٹیلی جنس اہلکار
تصویر: آئی این این
ایران کے پاس میزائلوں کا ذخیرہ اور صلاحیت موجود ہے کہ وہ اسرائیلی حملوں میں اپنے اعلیٰ کمانڈروں کی ہلاکت کے باوجود مسلسل جوابی حملے جاری رکھ سکے، ایک سابق اسرائیلی انٹیلی جنس اہلکار نے این بی سی نیوز کو بتایا۔ اس اہلکار، جس کی شناخت این بی سی نیوز نے ظاہر نہیں کی، نے تہران کے رویے کو ’’اسٹریٹجک پیشن ‘‘(strategic patience) سے تعبیر کیا اور ان قیاس آرائیوں کو مسترد کیا کہ ایرانی حکومت تباہی کے دہانے پر ہے۔ انہوں نے کہا: ’’تہران میں حملے جاری رکھنے کی ہمت اور صلاحیت دونوں موجود ہیں۔ ‘‘ اہلکار نے بتایا کہ ’’گزشتہ روز داغے گئے ایرانی میزائل زیادہ تیز رفتار تھے جس کی وجہ سے اسرائیل کے پاس میزائلوں کی آمد سے پہلے تیاری کا وقت کم رہ گیا۔ ‘‘
یہ بھی پڑھئے: برطانیہ: معاون موت بل پربحث سے قبل مسلم ڈاکٹروں کا طبی نظام سے علاحدگی کا انتباہ
اہلکار کے مطابق، گزشتہ۲۴؍ گھنٹوں میں ایران کی جانب سے داغے گئے میزائلوں میں سے صرف ۶۵؍ فیصد کو اسرائیلی میزائل دفاعی نظام روک سکا جبکہ ایک دن پہلے یہ شرح تقریباً۹۰؍ فیصد تھی۔ انہوں نے بتایا کہ ایران نے تیز رفتار اور جدید میزائل تعینات کئےہیں جن کی وجہ سے اسرائیل کا وارننگ ٹائم۱۰؍ منٹ سے کم ہو کر محض۶؍ منٹ رہ گیا ہے، اور ان میزائلوں میں جدید رہنمائی نظام (گائیڈنس سسٹم) بھی نصب ہے جو انہیں زیادہ درست نشانہ بنانے کے قابل بناتا ہے۔ اسرائیلی اہلکار نے مزید کہا: ’’اہم بات یہ ہے کہ ایرانی میزائلوں میں آخری مرحلے کیلئے نیویگیشن سسٹم موجود ہے جو انہیں بہت درستگی سے بالکل انہی اہداف کو نشانہ بنانے میں مدد دیتا ہے، جیسے کہ آج بیرشبع (Beersheba) کے اسپتال پر حملہ۔ ‘‘