Inquilab Logo Happiest Places to Work

برطانیہ: موت میں سہولت دینے کے بل پربحث سے قبل مسلم ڈاکٹروں کا طبی نظام سے علاحدگی کا انتباہ

Updated: June 20, 2025, 5:00 PM IST | London

برطانیہ کی پارلیمنٹ میں موت میں سہولت دینے کے بل پر بحث سے قبل مسلم ڈاکٹروں نے طبی نظام سے علاحدگی کا انتباہ دیا ہے، ان کا کہنا ہے کہ مریض کو خودکشی کی اجازت دینا یا اس میں معاونت کرنا ان کے عقیدے اور اخلاقیات دونوں کے خلاف ہے۔

Demonstration against assisted dying in the UK. Photo: X
برطانیہ کے مسلم ڈاکٹروں کا مظاہرہ۔ تصویر: ایکس

برطانیہ کی پارلیمنٹ میں موت میں سہولت دینے کے بل پر بحث سے قبل مسلم ڈاکٹروں نے طبی نظام سے علاحدگی کا انتباہ دیا ہے، ان کا کہنا ہے کہ مریض کو خودکشی کی اجازت دینا یا اس میں معاونت کرنا ان کے عقیدے اور اخلاقیات دونوں کے خلاف ہے۔ واضح رہے کہ۲۰؍ جون کو پارلیمنٹ برطانیہ کی طبی تاریخ کے متنازع ترین بل میں سے ایک، ’’معاون موت بل‘‘پر بحث کرے گی۔ اگر یہ پاس ہو گیا تو قانون ناامید مریضوں کو، جن کی موت چھ ماہ یا اس سے کم عرصے میں متوقع ہو، زندگی ختم کرنے والی دوا کی درخواست کرنے کا  قانونی حق دے گا۔اگرچہ بل کے مسودے میں طبی عملے کی رضامندی کو لازمی قرار دیا گیا ہے، لیکن بہت سے برطانوی مسلمان ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ وہ صورت حال کی سمت اور عملی طور پر اپنے ضمیر کے مطابق انکار کرنے کے حق کے بارے میں شدید فکرمند ہیں۔

یہ بھی پرھئے: برطانیہ: پلاسٹک سرجن وکٹوریہ روز غزہ دوبارہ جانے کی خواہشمند

ڈاکٹر عائشہ ملک، جو لیڈزا سکول آف میڈیسن کی گریجویٹ ہیں اور فی الحال میٹرنٹی لیو پر ہیں، کے لیے یہ بل ان کی طبی کیریئر کی سمت متعین کر سکتا ہے۔ جیسے جیسے وہ کسی خاص شعبہ کا انتخاب کرنے والی ہیں، مریضوں کی موت میں معاونت کرنے کا امکان ان پر بھاری پڑ رہا ہے۔ انہوں نے ٹی آر ٹی ورلڈ کو بتایاکہ ’’یہ میرے تمام سکھائے ہوئے اصولوں کے منافی ہے — کہ زندگی کے معیار کو بہتر بنایا جائے، ختم نہ کیا جائے۔ اگر ہمیں حصہ لینے پر مجبور کیا گیا تو میں جنرل پریکٹس یا دیکھ بھال کے شعبے میں نہیں جا پاؤں گی۔‘‘
اپنی ہم خیال ڈاکٹروں کی طرح، عائشہ ملک کی مخالفت طبی اخلاقیات اور ان کے اسلامی عقیدے دونوں پر مبنی ہے۔ اسلام میں زندگی اور موت کو تقدیر الٰہی کا معاملہ سمجھا جاتا ہے، خودکشی اور رضامندی سے موت دونوں کو صریحاً حرام قرار دیا گیا ہے۔ برٹش اسلامی میڈیکل ایسوسی ایشن کے ۲۰۲۴ءکے سروے میں پتا چلا کہ۸۸؍ فیصد مسلمان طبی پیشہ ور افراد معاون موت کو قانونی  درجہ دینے کے خلاف ہیں۔اگرچہ بل میں واضح ہے کہ کسی طبی کارکن کو زبردستی شریک نہیں کیا جائے گا، لیکن اس کی زبان ابھی قانون کا حصہ نہیں بنی۔خان کا مؤقف ہے کہ بل میں حفاظتی اقدامات ناکافی ہیں، اور حکومت نے ان سماجی اور نفسیاتی دباؤ پر پوری طرح غور نہیں کیا جو کمزور مریضوں کو معاون موت کی درخواست کرنے پر مجبور کر سکتے ہیں۔انہوں نے کہاکہ ’’یہ یقینی بنانے کا کوئی طریقہ نہیں ہے کہ غلط اموات واقع نہیں ہوں گی — اور ہمارے عقیدے کے مطابق، ایکبھی  ناانصافی پر مبنی موت ناقابل قبول ہے۔‘‘

یہ بھی پڑھئے: برطانیہ: غزہ جنگ بند کرنے کیلئے مزید ۱۰۰؍ مشہور شخصیات کا حکومت سے مطالبہ

 ڈاکٹروں کا مؤقف ہے کہ معاون موت کو پارلیمنٹ سے گزارنے کی بجائے، حکومت کو جدید علاج، تسکینی نگہداشت، اور بہترطبی خدمات میں سرمایہ کاری کرنی چاہیے۔ڈاکٹر عائشہ ملک (برمنگھم) کہتی ہیں:’’ہم تحقیق میں۲۰؍ سال پیچھے ہیں۔ دنیا بھر میں ایسے شفاخا نےہیں جو آخری اسٹیج کے کینسر کا کامیابی سے علاج کر رہے ہیں۔ ہم ان سے کیوں نہیں سیکھ رہے؟‘‘انہوں نے مزید کہاکہ ’’آئیے مریضوں کو حقیقی متبادل دیں۔ زندگی کے معیار کو بہتر بنائیں، انتظار کی صعوبت کو کم کریں، اور جامع نقطہ نظر اپنائیں۔ہم ایسے ہی ڈاکٹر بننے کے لیے آئے تھے۔‘‘دریں اثناء پارلیمنٹ جب۲۰؍ جون کی اہم بحث کی تیاری کر رہی ہے، مسلمان طبی پیشہ ور افراد قانون سازوں سے اپیل کر رہے ہیں کہ وہ نہ صرف ان کی آوازیں نظر انداز نہ کریں بلکہ ان اخلاقیشعبوں کو بھی ملحوظ رکھیں جو معاون موت بل بغیر جامع حل کے چھوڑ رہا ہے۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK