نیویارک شہر کے میئر کیلئے ڈیموکریٹک امیدوار ظہران ممدانی پر انتخابی مہم کے دوران اسلام مخالف حملوں اور نسل پرستی کی لہر اٹھ کھڑی ہوئی ہے۔ اگر وہ کامیاب ہوئے تو وہ امریکہ کے سب سے بڑے شہر کے پہلے مسلمان اور جنوبی ایشیائی نژاد میئر بن جائیں گے۔
EPAPER
Updated: October 30, 2025, 10:00 PM IST | New York
نیویارک شہر کے میئر کیلئے ڈیموکریٹک امیدوار ظہران ممدانی پر انتخابی مہم کے دوران اسلام مخالف حملوں اور نسل پرستی کی لہر اٹھ کھڑی ہوئی ہے۔ اگر وہ کامیاب ہوئے تو وہ امریکہ کے سب سے بڑے شہر کے پہلے مسلمان اور جنوبی ایشیائی نژاد میئر بن جائیں گے۔
 
                                نیویارک شہر میئر انتخابات کے سب سے مضبوط امیدوار ظہران ممدانی پر اسلام مخالف حملے شروع ہوگئے ہیں۔ ۳۳؍ سالہ ڈیموکریٹ امیدوار اس وقت پولز میں ۴۴؍ فیصد عوامی حمایت کے ساتھ آگے ہیں۔ تاہم ان کی مہم کو اسلام مخالف بیانات، نسل پرستانہ تشہیر اور جھوٹے حملوں کا سامنا ہے۔ ۲۵؍ اکتوبر کو ووٹنگ کے آغاز سے قبل، سابق گورنر اینڈریو کوومو نے ایک قدامت پسند ریڈیو شو میں حصہ لیتے ہوئے اس وقت ان کا مذاق اڑایا جب میزبان نے کہا کہ’’اگر ۱۱؍ ستمبر جیسا حملہ ہو تو ممدانی خوش ہوں گے۔‘‘ خیال رہے کہ کوومو ڈیموکریٹک پرائمری میں ممدانی سے ہار چکے ہیں۔ اسی دوران سبکدوش میئر ایرک ایڈمز، جو کوومو کے حامی ہیں، نے مسلمانوں کو ’’اسلامی انتہا پسندی‘‘ سے جوڑنے والے متنازع بیانات دیئے۔ ریپبلکن نائب صدر جے ڈی وینس نے بھی ممدانی کے ۱۱؍ ستمبر کے بعد مسلم خواتین پر خوف کے تبصرے کا مذاق اڑایا، جس پر معروف صحافی مہدی حسن نے انہیں ’’نسل پرستانہ رویے‘‘ پر شدید تنقید کا نشانہ بنایا۔
یہ بھی پڑھئے:ای سی او ممالک ڈالر کی جگہ علاقائی کرنسی لا سکتے ہیں: ایران کی تجویز
Zohran "little muhammad" Mamdani is an antisemitic, socialist, communist who will destroy the great City of New York. He needs to be DEPORTED. Which is why I am calling for him to be subject to denaturalization proceedings.
— Rep. Andy Ogles (@RepOgles) June 26, 2025
Attached is my letter to @AGPamBondi. pic.twitter.com/RWCZm67VOr
I don`t agree with Mamdani`s far left economic policies, but these sort of attacks are not criticism of his policies, this cartoon is basically a racist dog whistle. pic.twitter.com/2epDbPiIBH
— John Aziz (@aziz0nomics) October 22, 2025
آن لائن نفرت انگیزی اور جعلی اشتہارات
واشنگٹن کے سینٹر فار دی اسٹڈی آف آرگنائزڈ ہیٹ کے مطابق ممدانی کی ابتدائی کامیابی کے بعد سوشل میڈیا پر مسلم مخالف پوسٹس میں ۴۰؍ فیصد فیصد اضافہ ہوا۔ ان پوسٹس میں ’’اسلامی سوشلزم نیویارک پر قبضہ کر رہا ہے‘‘ جیسے نعرے اور نسل پرست اے آئی ویڈیوز شامل ہیں، جن میں مسلمانوں کو تشدد کرتے یا شہر پر قابض دکھایا گیا۔ سابق گورنر کوومو کی مہم نے بھی اے آئی سے تیار کردہ نسل پرستانہ ایک ویڈیو جاری کیا جس میں جنوبی ایشیائی مسلمانوں کو ’’جرم اور انتہا پسندی‘‘ سے جوڑا گیا۔ تاہم، شدید ردعمل کے بعد یہ ویڈیو حذف کر دیا گیا۔ 
یہ بھی پڑھئے:بہار: پرشانت کشور مسلم امیدوار کے ساتھ مندر گئے، بعد میں مندر کی صفائی پر تنازع
Zohran "little muhammad" Mamdani is an antisemitic, socialist, communist who will destroy the great City of New York. He needs to be DEPORTED. Which is why I am calling for him to be subject to denaturalization proceedings.
— Rep. Andy Ogles (@RepOgles) June 26, 2025
Attached is my letter to @AGPamBondi. pic.twitter.com/RWCZm67VOr
ہندوتوا گروپس کی شمولیت
ممدانی کے خلاف مہم میں امریکہ اور ہندوستان کے ہندوتوا نظریات رکھنے والے گروپس بھی سرگرم ہیں۔ وشو ہندو پریشد امریکہ، کولیشن آف ہندوز آف نارتھ امریکہ اور ہندو سویم سیوک سنگھ (آر ایس ایس کا امریکی وِنگ) نے ان کی مخالفت میں مہمات چلائیں۔ نیوجرسی میں ایک تقریب کے دوران ہندوتوا لیڈر کاجل شنگلا نے ممدانی کو ’’جہادی زومبی‘‘ قرار دیا۔ ایونٹ کے منتظمین میں سے ایک نے کہا کہ ’’ہندوؤں کو اس پیغام کی تشہیر کرنی چاہئے۔‘‘ یہ مخالفت اس وقت تیز تر ہوئی جب ممدانی نے مئی میں گجرات ۲۰۰۲ء کے فسادات کا حوالہ دیتے ہوئے جن میں ایک ہزار سے زائد مسلمان مارے گئے تھے، ہندوستانی وزیر اعظم نریندر مودی کو ’’جنگی مجرم‘‘ کہا۔
یہ بھی پڑھئے:اے آئی چِپس بنانے والی این ویڈیا دنیا کی پہلی ۵؍ ٹریلین ڈالرس مالیت والی کمپنی بن گئی
ممدانی کا پس منظر اور موقف
ممدانی یوگانڈا میں ہندوستانی نژاد والدین کے ہاں پیدا ہوئے۔ ان کی والدہ فلم ساز میرا نائر اور والد ماہر تعلیم محمود ممدانی ہیں۔ وہ بچپن میں نیویارک منتقل ہوئے اور ۲۰۱۸ء میں امریکی شہری بنے۔ ممدانی کا کہنا ہے کہ ان کی مودی پر تنقید انہیں ’’ہندو مخالف‘‘ نہیں بناتی۔ انہوں نے کہا کہ ’’میں فخریہ طور پر ایک ہندوستانی نژاد امریکی ہوں۔ میرا ورثہ میری شناخت اور سیاست کا حصہ ہے۔ ہندوستانی آئین کے اصول آج بھی میری رہنمائی کرتے ہیں۔‘‘
مسلم ووٹ کا اثر
نیویارک میں تقریباً ۱۰؍ لاکھ مسلمان رہتے ہیں، جن میں سے ۵ء۳؍ لاکھ رجسٹرڈ ووٹرز ہیں۔ ۲۰۲۱ء میں صرف ۱۲؍ فیصد مسلمانوں نے ووٹ دیا تھا، تاہم ۲۰۲۴ء کے ڈیموکریٹک پرائمری میں مسلم اور جنوبی ایشیائی ووٹ میں واضح اضافہ دیکھا گیا ہے۔