Inquilab Logo

اسرائیل کا رفح کے ۴ء۱؍ ملین آبادی والے حصے کو اکھاڑ پھینکنے کا منصوبہ

Updated: March 14, 2024, 3:15 PM IST | Jerusalem

اسرائیل نے رفح میں اپنی زمینی کارروائیوں سے قبل وہاں کے ۴ء۱؍ملین آبادی والے حصے کو اکھاڑ پھینکنے کا منصوبہ بنایا ہے۔ اس ضمن میں اسرائیلی فوج کے ترجمان ڈینیل ہاگری نے کہا کہ رفح میں مقیم فلسطینیوں کو مخصوص علاقوں کی جانب منتقل کرنا ہمارے عمل کی اہم کنجی ہے۔ امریکہ کے سیکریٹری جنرل انتونی بلنکن نے کہا کہ ہمیں اسرائیل کے وہاں کے شہریوں کیلئے تیار کئے گئے منصوبے کے حوالے سے کوئی معلومات نہیں۔

Palestinian during iftar. Photo:INN
فلسطینی افطار کرتے ہوئے۔ تصویر: آئی این این

فلسطین حامی مظاہرین کا عالمی برانڈز کا بائیکاٹ، کمپنیوں کو اربوں ڈالر کا نقصان

ملک میں فوج کی حکمرانی یا آمریت ہو: پیو سروے میں ۸۵؍ فیصد ہندوستانیوں کا جواب

اسرائیل نے رفح میں اپنی زمینی کارروائی سے قبل غزہ کے سب سے جنوبی قصبے رفح میں مقیم ۴ء۱؍ ملین فلسطینیوں کی آبادی والے حصے کو زبردستی اکھاڑ پھینکنے کا منصوبہ بنایا ہے۔ اس ضمن میں اسرائیل کے چیف ملٹری ترجمان ڈینیل  ہاگری نے کہا کہ رفح کے فلسطینیوں کو مخصوص علاقوں کی طرف منتقل کرنا رفح میں زمینی کارروائی کی اہم کنجی ہے۔ اسرائیل کا دعویٰ ہے کہ وہاں حماس کے ۴؍ فوجی دستہ تعینات ہیں۔ ہاگری نے رپورٹرس سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ ہمیں اس بات کو یقینی بنانا ہے کہ تقریباً ۱ء۴؍ ملین افراد کو یہاں سے مخصوص علاقوں میں منتقل کیا جائے۔
تاہم، انہوں نے یہ نہیں بتایا ہے کہ یہاں سے فلسطینیوں کی روانگی کب عمل میں آئے گی یا رفح پر اسرائیلی حملے کب شروع ہوں گے؟البتہ انہوں نے یہ کہاکہ  اسرائیل کو اس عمل کو انجام دینے کیلئے درست وقت کا انتظار ہے اور وہ مصر سے بھی رابطہ کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ مصر کا کہنا ہے کہ وہ نہیں چاہتا کہ بے گھر فلسطینی سرحد پار کر کے مصر کی جانب نقل مکانی کریں۔

فلسطینی بچے غذا کیلئے قطار میں دیکھے جاسکتے ہیں۔ تصویر: ایکس
امریکہ رفح کے بارے میں اپنے تحفظات پر اسرائیل کے ساتھ ڈٹا ہےجبکہ بدھ کو امریکہ کے سیکریٹری جنرل انتونی بلنکن نے کہا تھا کہ واشنگٹن کو اس حوالے سے اسرائیل کے وہاں کے شہریوں کیلئے منصوبے کے تعلق سے کوئی معلومات نہیں ۔
انہوں نے رپورٹرس سے بات چیت کرتے ہوئے بتایا کہ اگر اسرائیل رفح میں فوجی کارروائیاں کرتا ہے تو ہمیں ایسا منصوبہ بنانے کی ضرورت ہے جس سے شہریوں کو کسی قسم کی کوئی پریشانی نہ ہو۔ہم نے اب تک ایسا کوئی منصوبہ تیار نہیں کیا ۔ 
رفح میں فلسطینیوں کی قسمت اسرائیل کے حامیوں، جن میں امریکہ اور انسانی امداد کے گروپس شامل ہیں، کیلئے تشویش کا باعث ہے کیونکہ رفح میں اسرائیل کی کارروائیاں، جہاں بے گھر افراد کی ایک بڑی تعداد موجود ہے، عظیم تباہی ثابت ہو سکتی ہیں۔رفح غزہ میں انسانی امداد کے داخل ہونے کیلئے اہم پوائنٹ ہے۔
اس ضمن میں اسرائیل کے وزیراعظم بنجامن نتین یاہو نے کہا کہ رفح پر حملہ اسرائیل کے حماس کو مٹانے کے اہم مقصد کیلئے ضروری ہےلیکن تنقید نگاروں کا کہنا ہے کہ یہ مقصد ناکام ہو سکتا ہے۔

غزہ میں فلسطینی خواتین افطار کی تیاری کرتے ہوئے۔ تصویر: ایکس
خیال رہے کہ رفح میں ان فلسطینیوں کی بڑی تعداد موجود ہے جنہیں اسرائیل نے غزہ کے چاروں کونے سے نقل مکانی پر مجبور کیا تھا۔ رفح خیموں سے بھرا ہے۔ 
جنگ کے آغاز میں اسرائیل نے فلسطینیوں کو رفح کی جانب ہجرت کا حکم دیاتھا اور اسے ’’سیف زون‘‘ قراردیا تھا جبکہ امدادی کارکنان کا کہنا تھا کہ وہاںبڑی تعداد میں بے گھر فلسطینیوں کے قیام کے انتظامات نہیں کئے گئے تھے اور یہ علاقہ بھی اسرائیلی فضائی حملوں کا نشانہ بنا تھا۔ اس درمیان غزہ کے اطراف جنگ جاری ہے۔ 
واضح رہے کہ اب تک اسرائیلی حملوں میں غزہ کے ۳۱؍ ہزار سے زائد فلسطینی جاں بحق جبکہ ۷۰؍ ہزار سے زائد زخمی ہو چکے ہیں۔تاہم، اسرائیلی حملوں کے نتیجے میں غزہ کی ۸۵؍ فیصد آبادی بے گھر ہو گئی ہے۔ اسرائیل نے غزہ کی اہم عبادتگاہوں اور تعلیمی اداروں کوبھی نشانہ بنایا ہے۔
بدھ کو جنوبی غزہ میں یو این آر ڈبلیو اے کے غذائی تقسیم کے حصے میں بھی اسرائیل نے حملے کئے تھے جس کے نتیجے میںایجنسی کا ایک عملہ جاں بحق جبکہ ۲۲؍ زخمی ہوئے تھے۔یو این آر ڈبلیو اے کے مطابق گزشتہ ۵؍ ماہ میں اب تک اس کے ۱۶۵؍ کارکنان اسرائیلی حملوں میں ہلاک ہو چکے ہیں۔ 
اسرائیلی حملوں کے سبب غزہ میں تباہی ہے جبکہ غزہ کی آدھی آبادی صاف پانی، غذا اور ادویات کی کمی کا سامناکر رہی ہےجبکہ ۷؍لاکھ افراد بھکمری کا شکار ہیں۔ خاص طورپر شمالی غزہ میں بھکمری میں بڑے پیمانے اضافہ ہو رہا ہے۔خیال رہے کہ امریکہ اور دیگر ممالک نے گزشتہ ہفتوں میں ایئر ڈروپ کے ذریعے غزہ میں انسانی امدادپہنچائی تھی۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK