Updated: December 17, 2025, 9:56 PM IST
| Tel Aviv
اسرائیلی فوج کو افسروں اور نان کمیشنڈ افسران کے بڑھتے ہوئے استعفوں کے باعث شدید افرادی قوت کے بحران کا سامنا ہے۔ اب تک ۵۰۰؍ سے زائد درخواستیں موصول ہو چکی ہیں، جبکہ پنشن اصلاحات میں تاخیر، کم تنخواہیں اور غزہ جنگ کے دباؤ کو اس عدم اطمینان کی بڑی وجوہات قرار دیا جا رہا ہے۔
اسرائیلی میڈیا رپورٹس کے مطابق اسرائیلی فوج کو افسروں اور فوجیوں کی جانب سے استعفیٰ کی درخواستوں میں تیزی سے اضافے کے باعث سنگین افرادی قوت کے بحران کا سامنا ہے۔ فوجی حکام نے خبردار کیا ہے کہ اگر یہی رجحان برقرار رہا تو کچھ عرصے میں یوں ہوگا کہ فوج آدھی رہ جائے گی۔ یہ اسرائیل کیلئے تشویشناک صورتحال ہے۔ اسرائیل کے معروف اخبار يديعوت أحرونوت کے مطابق فوج خاص طور پر افسران اور نان کمیشنڈ افسران (این سی اوز) کی بڑی تعداد میں علاحدگی کی درخواستوں سے پریشان ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اب تک باقاعدہ فورسیز میں خدمات انجام دینے والے افسروں اور این سی اوز کی جانب سے کم از کم ۵۰۰؍ استعفیٰ کی درخواستیں جمع کرائی جا چکی ہیں، تاہم ان درخواستوں کی درست مدت یا یونٹس کی تفصیل ظاہر نہیں کی گئی۔
یہ بھی پڑھئے: بونڈی شوٹنگ: ملزم پر دہشت گردی سمیت ۵۹؍ الزامات
اخبار کے مطابق، فوجی قیادت تمام عمر کے گروپس اور مختلف رینکس میں استعفیٰ کی درخواستوں میں مسلسل اضافے کی نشاندہی کر رہی ہے۔ اعلیٰ فوجی حکام اس صورتحال کو ایک ’’حقیقی افرادی قوت کے بحران‘‘ کے طور پر بیان کر رہے ہیں، جو ایک ایسے وقت میں شدت اختیار کر رہا ہے جب فوج پہلے ہی غیر معمولی دباؤ اور طویل جنگی حالات سے دوچار ہے۔ رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ فوج کو آئندہ مہینوں میں مزید استعفیٰ کی درخواستوں کی توقع ہے، خاص طور پر مستقل سروس میں موجود ان اہلکاروں کی جانب سے جو طویل عرصے سے تنخواہوں، مراعات اور پیشہ ورانہ مستقبل کے حوالے سے عدم اطمینان کا شکار ہیں۔
اخبار کے مطابق، کنیسٹ (اسرائیلی پارلیمان) نے تاحال ان مجوزہ قانونی ترامیم کی منظوری نہیں دی، جن کے تحت افسران اور فوجیوں کیلئے پنشن میں ۷؍ سے ۱۱؍ فیصد تک اضافہ کیا جانا تھا۔ اس تاخیر نے فوج کے اندر پائے جانے والے غصے اور مایوسی کو مزید بڑھا دیا ہے، کیونکہ کئی اہلکار اس اضافے کو اپنی مالی مشکلات میں کچھ حد تک ریلیف سمجھتے تھے۔ رپورٹ میں واضح کیا گیا ہے کہ یہ استعفیٰ کی درخواستیں ریزرو فورسیز کے بجائے مستقل سروس میں موجود اہلکاروں کی جانب سے دی گئی ہیں۔ ان درخواستوں کی بنیادی وجوہات میں کم تنخواہیں، پیشہ ورانہ عدم تحفظ، اور فوجی قیادت کی جانب سے بڑھتی ہوئی عدم توجہی شامل بتائی گئی ہیں۔ سب سے اہم یہ کہ غزہ میں جاری اسرائیلی کارروائیوں کے دوران طویل تعیناتی اور شدید دباؤ نے فوجیوں کی ذہنی اور جسمانی حالت پر گہرے اثرات ڈالے ہیں۔
یہ بھی پڑھئے: برطانیہ میں الیکٹرک گاڑیوں کی فروخت میں اضافے کا رجحان
اسرائیلی فوج کے بارے میں کہا جا رہا ہے کہ وہ اس وقت ہزاروں افسروں اور نان کمیشنڈ افسران کو مستقل سروس جاری رکھنے پر آمادہ کرنے کیلئے جدوجہد کر رہی ہے۔ فوجی قیادت کی کوشش ہے کہ مراعات، ترقی کے مواقع اور مستقبل کے وعدوں کے ذریعے اہلکاروں کو روکا جائے، تاہم موجودہ حالات میں ان کوششوں کو محدود کامیابی حاصل ہو رہی ہے۔ ماہرین کے مطابق، اگر مستقل سروس سے اہلکاروں کا اخراج اسی رفتار سے جاری رہا تو اس کا نتیجہ اسرائیلی فوج کی مجموعی قوت اور آپریشنل صلاحیت میں کمی کی صورت میں نکل سکتا ہے۔ یہ صورتحال ایک ایسے وقت میں سامنے آ رہی ہے جب اسرائیلی فوج کو متعدد محاذوں پر سیکوریٹی چیلنجز، اندرونی سیاسی دباؤ اور عالمی سطح پر بڑھتی ہوئی تنقید کا سامنا ہے۔ اسرائیلی میڈیا کا کہنا ہے کہ آنے والے ہفتے اس حوالے سے انتہائی اہم ہوں گے کیونکہ کنیسٹ میں زیرِ التوا اصلاحات اور فوجی قیادت کے فیصلے اس بحران کے رخ کا تعین کر سکتے ہیں۔