Inquilab Logo Happiest Places to Work

مشرقی اور مغربی غزہ میں اسرائیلی حملوں میں شدت،النصر اسپتال پر بمباری

Updated: August 26, 2025, 1:32 PM IST | Agency | Gaza

اسرائیلی حملے میں پانچ صحافیوں سمیت ۲۰؍ افراد شہید۔ غزہ کے دیگر مقامات پر بھی بہیمانہ کارروائیوں کے نتیجے میں مجموعی طور پر ۵۰؍سے زائد فلسطینی شہید۔

Black smoke billows from a residential area in Gaza as a result of Israeli bombing. Photo: INN
اسرائیلی بمباری کے نتیجے میں غزہ کے ایک رہائشی علاقے سے دھویں کے سیاہ بادل اٹھتے ہوئے۔ تصویر: آئی این این

اسرائیل کی جانب سے صحافیوں کو نشانہ بنانے کا سلسلہ جاری ہے۔ پیر کی صبح صہیونی فوج نے غزہ کے النصر اسپتال پر یکے بعد دیگرے دو فضائی حملے کیے، جس میں کم از کم ۲۰؍ افراد شہید ہوگئے۔ ان میں ۵؍ صحافی بھی شامل ہیں ۔ ’رائٹرز‘ کے مطابق فلسطینی محکمہ صحت کے حکام نے بتایا کہ اسرائیل کی جانب سے اسپتال پر کئے گئے پہلے حملے میں ’رائٹرز‘ کے کیمرہ مین حسام المصری شہید ہوگئے، جبکہ دوسرے حملے میں رائٹرز کے ایک اور فوٹوگرافر حاتم زخمی ہوگئے۔ عینی شاہدین نے بتایا کہ دوسرا حملہ اس وقت ہوا جب امدادی کارکن، صحافی اور دیگر لوگ ابتدائی حملے کی جگہ پر پہنچے اور حملے کی کوریج کر رہے تھے۔ رائٹرز کےویڈیو فوٹیج میں دکھایا گیا ہے کہ غزہ کے النصر اسپتال سے براہِ راست نشر ہونے والا ویڈیو فیڈ، جسے المصری چلا رہے تھے، ابتدائی حملے کے چند ہی لمحوں بعد اچانک بند ہوگیا۔ 
 فلسطینی وزارت صحت و دیگر ذرائع نے چار صحافیوں کی شہادت کی بھی تصدیق کی ہے، جن میں خبر ایجنسی ’اے پی‘ کی صحافی مریم ابو دغہ، الجزیرہ کے فوٹو جرنلسٹ محمد سلامہ، امریکی ٹی وی این بی سی کے صحافی معاذ ابو طحہٰ اور قدس نیوز نیٹورک کے احمد ابو عزیز شامل ہیں ، جب کہ شہید ہونے والوں میں ایک امدادی کارکن بھی شامل ہے۔ فلسطینی صحافیوں کی انجمن کے مطابق ۷؍اکتوبر۲۰۲۳ء کو اسرائیلی مظالم کے نتیجے میں اب تک ۲۴۰؍ سے زائد فلسطینی صحافی غزہ میں شہید ہو چکے ہیں ۔ غزہ کی سول ڈیفنس کے ترجمان محمود بصل نے اسرائیل سے اسپتالوں پر حملے بند کرنے اور امدادی سامان غزہ پہنچانے کا مطالبہ کیا ہے۔ 

یہ بھی پڑھئے:مارک رفیلو کی اسرائیل پردوبارہ تنقید، غزہ میں قحط پرعالمی اقدام کی اپیل

غزہ کے مشرقی اور مغربی حصوں میں بھی کیا صورتحال ہے؟
اسرائیلی افواج کی جانب سے غزہ شہر میں فوجی کارروائیوں کو وسیع کرنے کا سلسلہ جاری ہے۔ شہر میں کئی علاقوں بشمول التفاح اور الزرقا شدید اور مسلسل فضائی بمباری اور توپوں سے حملوں کی زد میں ہیں۔ ان کارروائیوں میں دھماکہ خیز روبوٹ بھی استعمال کیے جا رہے ہیں۔ مقامی ذرائع کے مطابق غزہ کے مغربی علاقے الکرامہ میں ایک گھر پر فضائی حملے کے نتیجے میں تین فلسطینی جاں بحق اور کئی زخمی ہوئے۔ ایک اور بمباری میں شہر کے وسط میں بے گھر فلسطینیوں کے خیمے کو نشانہ بنایا گیا، جس سے متعدد شہری زخمی ہوئے اور آگ بھڑک اٹھی۔ اسرائیلی حملوں میں وسطی اور جنوبی غزہ کی ان بستیوں کو بھی نشانہ بنایا گیا جہاں بڑی تعداد میں بے گھر لوگ پناہ لیے ہوئے ہیں۔ اسی دوران شمالی غزہ میں امداد کے منتظر شہریوں کے اجتماع پر بھی گولہ باری کی گئی۔ یہ تمام واقعات ایسے وقت پیش آ رہے ہیں جب مقامی ادارے اور اقوامِ متحدہ کے زیر انتظام ادارے بھوک اور غذائی قلت کے بڑھتے خطرات پر انتباہات جاری کر رہے ہیں۔ بالخوص اس اعلان کے بعد کہ اسرائیلی فوج نے غزہ میں اپنی کارروائیوں کے دائرے کو مزید وسیع کر دیا ہے۔ 
غزہ کے شہری دفاع کا کہنا ہے کہ غزہ شہر کے دو بڑے علاقوں میں ایک ہزارسے زیادہ عمارتیں تباہ ہوئی ہیں ۔ غزہ کے سول ڈیفنس نے اطلاع دی ہے کہ غزہ شہر پر اسرائیلی فضائی حملوں میں شدت کے دوران ۶؍ اگست سے زیتون اور صابرہ کے محلوں میں ایک ہزار سےزیادہ عمارتیں تباہ ہو چکی ہیں ۔ ریسکیو تنظیم نے ایک بیان میں کہا کہ شہید ہونے والے فلسطینیوں کی سیکڑوں لاشیں اب بھی ملبے کے نیچے پھنسی ہوئی ہیں جبکہ جاری گولہ باری اور رسائی کے راستوں اور وسائل کی کمی کی وجہ سے کئی امدادی کارروائیوں کو روکا جارہا ہے۔ بیان میں کہا گیا ہے کہ ہنگامی کارکنوں کو ان علاقوں سے لاپتہ افراد یا شہدا ءکی بڑی تعداد میں رپورٹس موصول ہوتی رہتی ہیں لیکن وہ جواب دینے سے قاصر ہیں ۔ انہوں نے متنبہ کیا کہ طبی ٹیمیں اسرائیلی حملوں کا مقابلہ نہیں کر سکتیں اور یہ کہ غزہ میں کوئی محفوظ علاقہ نہیں ہے۔ اسرائیلی ٹینکوں کو صابرہ کے پڑوس میں گھومتے ہوئے دیکھا گیا ہے جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اسرائیل کی جانب سے غزہ شہر پر قبضہ کرنے کے لیے مزید تباہی متوقع ہے۔ 
غزہ میں جوکچھ ہورہا ہے وہ جنگی جرم ہے:ایہوداولمرٹ
 اسرائیل کے سابق وزیرِاعظم ایہود اولمرٹ نے کہا کہ غزہ میں جو کچھ ہو رہا ہے وہ جنگی جرم ہے۔ عرب میڈیا کو انٹرویو دیتے ہوئے سابق اسرائیلی وزیراعظم نے کہا کہ مارچ ۲۰۲۵ء کے جنگ بندی معاہدے کے بعد اب غزہ کی جنگ ایک غیر قانونی جنگ ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس غیرقانونی جنگ کو ۷۰؍فیصد اسرائیلیوں کی حمایت حاصل نہیں ہے۔ اولمرٹ ۲۰۰۶ء سے ۲۰۰۹ء تک اسرائیل کے وزیراعظم رہے۔ انہوں نے اکتوبر ۲۰۲۳ء میں شروع ہونے والی جنگ کا دفاع کرتے ہوئے کہاکہ بےشک اس وقت جنگ جائز تھی کیونکہ وہ حماس کا اقدام تھا لیکن مارچ ۲۰۲۵ء میں جنگ بندی معاہدہ ہوجانے کے بعد یہ جنگ غیر قانونی ہے اور اسرائیل کیلئے ایک پھندہ ہے، اس جنگ میں بہت سے اسرائیلی فوجی مارے جارہے ہیں ۔ انہوں نے مزید کہاکہ ’’میں موجودہ اسرائیلی حکومت پر جنگی جرائم کا الزام لگاؤں گا‘‘ اولمرٹ  کا کہنا تھا کہ بیشتر اسرائیلیوں کا خیال ہے کہ یہ اس وقت نتن یاہو صرف اپنے فائدے کا سوچ رہے ہیں ، انہوں یرغمالوں کے خاندانوں ، قومی سلامتی اور اسرائیل کی کوئی فکر نہیں ہے۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK