ضلع کے امبڈ اور گھنساؤنگی کے کچھ کسانوں نے معاوضے کی تقسیم میں بے ضابطگی اور بدعنوانی کی شکایت کی تھی جس کے بعد یہ اسکینڈل منظر عام پر آیا۔
EPAPER
Updated: June 23, 2025, 12:06 PM IST | Inquilab News Network | Jalna
ضلع کے امبڈ اور گھنساؤنگی کے کچھ کسانوں نے معاوضے کی تقسیم میں بے ضابطگی اور بدعنوانی کی شکایت کی تھی جس کے بعد یہ اسکینڈل منظر عام پر آیا۔
کسانوں کیلئے مختص حکومتی امدادمیں غبن کرنے کےمعاملے میں محصول محکمہ کے ۲۱؍ سرکاری ملازمین کو معطل کیا گیا ہے۔ ’انڈین ایکسپریس‘ کی رپورٹ کے مطابق جالنہ ضلع انتظامیہ نے بدعنوانی کے خلاف بڑی کارروائی کرتے ہوئے، محصول محکمے کے کم از کم۲۱؍ اہلکاروں کو معطل کر دیا ہے۔ ان سرکاری ملازمین پر۴۲؍کروڑ روپے کے فنڈز کے غبن کا الزام ہے۔ یہ رقم قدرتی آفات کے بعد فصلوں کے نقصان کے شکار کسانوں کے لیے مختص کی گئی تھی۔ ضلعی انتظامیہ نے تحقیقات کا دائرہ جالنہ کی مختلف تحصیلوں اور مراٹھواڑہ کے ۷؍ دیگر اضلاع تک وسیع کرنے کا اعلان بھی کیا ہے۔
خیال رہے کہ یہ اسکینڈل اس وقت سامنے آیا جب امبڈ اور گھنساونگی تحصیلوں کے کچھ کسانوں نے شکایت کی کہ فصلوں کے نقصان پر معاوضے کی تقسیم میں بے ضابطگیاں ہو رہی ہیں۔ جالنہ کے کلکٹر شری کرشنا پنچال نے جنوری۲۰۲۵ء میں ایک ضلعی سطح کی کمیٹی تشکیل دی تھی تاکہ ان دو تحصیلوں میں معاوضے کی تقسیم کی جانچ کی جا سکے۔ ریاستی حکومت نے۲۰۲۲ء سے جالنہ میں زرعی ریلیف کے لیے۴۵۰؍ کروڑ روپے مختص کیے تھے۔ اس میں سے۷۹؍ کروڑ روپے کو ابتدائی آڈٹ رپورٹ میں مشکوک قرار دیا گیا، جس میں مستحقین کے ریکارڈز اور فنڈز کی تقسیم میں سنگین بے قاعدگیوں کی نشاندہی کی گئی۔ پنچال نے بتایا، ’’تفصیلی جانچ کے بعد ابھی تک ہم نے پایا کہ۴۲؍ کروڑ روپے جعلی دعوؤں کے ذریعے غبن کیے گئے۔ ہم نے اب تک ۲۱؍ اہلکاروں کو معطل کیا ہے، جن میں ۱۷؍تحصیل دار سطح کے اہلکار (تلاٹھی) اور۵؍کلرک شامل ہیں۔ ۳۵؍ تلاٹھیوں کے خلاف محکمانہ کارروائی شروع کی گئی ہے اور۵؍ تحصیلداروں کو شوکاز نوٹس جاری کیے گئے ہیں۔ ’’انہوں نے مزید بتایا کہ غبن شدہ رقم میں سے۷؍ کروڑ روپے کی برآمدگی ہو چکی ہے، اور دیگر تحصیلوں میں بھی تحقیقات جاری ہیں، جن کی رپورٹ جلد متوقع ہے۔ تحقیقات سے وابستہ اعلیٰ افسران کے مطابق، دھوکہ دہی کا ایک منظم طریقہ کار سامنے آیا ہے۔ جعلی کسانوں کے نام پر معاوضہ حاصل کیا گیاسرکاری یا غیر کاشت شدہ زمینوں پر فصلیں ظاہر کی گئیں زمین کے رقبے کو بڑھا چڑھا کر پیش کیا گیاایک ہی زمین پر بار بار معاوضے کے دعوے کیے گئےزمین کے ریکارڈ میں رد و بدل کر کے فائدہ حاصل کیا گیاایک ضلعی افسر نے کہا، ’’یہ کوئی کلریکل غلطی نہیں تھی، بلکہ اسکیم کے دانستہ اور منظم استحصال کی مثال ہے۔ بعض کیسز میں زمین پر کبھی فصل کاشت ہی نہیں کی گئی، مگر معاوضہ لے لیا گیا۔ ‘‘آڈٹ رپورٹ کے مطابق، کم از کم۱۰؍ اہلکاروں نے فی کس ایک کروڑ سے۱ء۹؍ کروڑ روپے تک کا غبن کیا، جبکہ کئی دیگر نے۲۵؍ لاکھ سے۵۰؍ لاکھ روپے کے درمیان رقم ہتھیائی۔ کسان تنظیموں نے اب وسیع احتساب کا مطالبہ کیا ہے، اور سوال اٹھایا ہے کہ گرام سیوک اور زرعی معاونین، جو زمین اور فصل کے نقصان کی تصدیق میں کلیدی کردار ادا کرتے ہیں، کے خلاف اب تک کوئی کارروائی کیوں نہیں ہوئی۔
کلکٹر پنچال نے کہا کہ اسکیم میں شامل تمام افراد، بشمول گرام سیوک اور کرشی سہائیک، جانچ کے دائرے میں ہیں اور حتمی آڈٹ کی بنیاد پر ان کے خلاف مناسب کارروائی کی جائے گی۔ تحقیقات کے دوران، ضلعی حکام مستحق کسانوں کی شناخت کے لیے زمین کے ریکارڈ، سیٹلائٹ امیجری، اور بینک کھاتوں کی تصدیق جیسے ذرائع استعمال کر رہے ہیں۔ جو شکایات دو تحصیلوں تک محدود تھیں، وہ اب مہاراشٹر کے حالیہ برسوں کے سب سے بڑے زرعی ریلیف اسکینڈل کی صورت اختیار کرتی جا رہی ہیں۔ نئی ہدایت کے مطابق، اورنگ آباد کے ڈویژنل کمشنر نے مراٹھواڑہ کے آٹھ اضلاع میں محصولات کے افسران کو گزشتہ پانچ سالوں کے دوران کسانوں کو قدرتی آفات کے تحت دی گئی تمام زرعی امداد کا آڈٹ کرنے کا حکم دیا ہے۔ حکم نامے میں درج ہدایات کے مطابق:یہ جانچنا ہو گا کہ آیا نا اہل افراد، جیسے غیر کسان یا سرکاری و غیر قابل کاشت زمینوں پر فصل دکھانے والے، کو معاوضہ دیا گیاکیا کسی کو غیر منصفانہ طور پر ایک سے زیادہ قسطیں ملیں آیا امداد غلط افراد یا جعلی کھاتوں میں منتقل ہوئیگاؤں کی سطح پر موجود ریکارڈز کے ذریعے تمام دعوؤں اور ناموں کی تصدیق کی جائے گی۔ ‘‘
معاملہ کیا ہے؟
ریاستی حکومت نے۲۰۲۲ء سے جالنہ میں زرعی ریلیف کے لیے۴۵۰؍ کروڑ روپے مختص کیے تھے۔ اس میں سے۷۹؍ کروڑ روپے کو ابتدائی آڈٹ رپورٹ میں مشکوک قرار دیا گیا، جس میں مستحقین کے ریکارڈز اور فنڈز کی تقسیم میں سنگین بے قاعدگیوں کی نشاندہی کی گئی۔تفصیلی جانچ میں پایا گیا کہ۴۲؍ کروڑ روپے جعلی دعوؤں کے ذریعے غبن کیے گئے۔ اس معاملے میں اب تک ۲۱؍ اہلکاروں کو معطل کیا ہے، جن میں۱۷؍تحصیل دار سطح کے اہلکار (تلاٹھی) اور۵؍کلرک شامل ہیں۔ ۳۵؍ تلاٹھیوں کے خلاف محکمانہ کارروائی شروع کی گئی ہے اور۵؍ تحصیلداروں کو شوکاز نوٹس جاری کیے گئے ہیں۔’’