اپوزیشن لیڈر راہل گاندھی نے ایک بار پھرلداخ کی صورتحال پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے وزیر اعظم کو نشانہ بنایا، مودی پر لداخ کے عوام کو دھوکہ دینے کا الزام ،حکومت پر تشدد اور خوف کی سیاست کو ترک کرکے لوگوں سے بات چیت کرنے پر زور.
EPAPER
Updated: October 01, 2025, 10:27 AM IST | Inquilab News Network | Leh
اپوزیشن لیڈر راہل گاندھی نے ایک بار پھرلداخ کی صورتحال پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے وزیر اعظم کو نشانہ بنایا، مودی پر لداخ کے عوام کو دھوکہ دینے کا الزام ،حکومت پر تشدد اور خوف کی سیاست کو ترک کرکے لوگوں سے بات چیت کرنے پر زور.
لوک سبھا میں قائد حزب اختلاف راہل گاندھی نے لداخ میں تشدد کے واقعہ میں ایک سابق فوجی سمیت چار شہریوں کی ہلاکت کی عدالتی تحقیقات کا مطالبہ کیا۔ انہوںنے وزیر اعظم مودی کی ایک بارپھر سخت تنقید کرتے ہوئے الزام عائدکیا کہ انہوں نےلداخ کے عوام کو دھوکہ دیا،کیونکہ یہاں کے لوگ اپنے حق کا مطالبہ کررہے ہیں۔ انہوںنے حکومت پر زور دیا کہ وہ تشدد اور خوف کی سیاست کو ترک کرکے لوگوں سے بات چیت کریں۔
راہل گاندھی نے ایک ویڈیو پوسٹ کرتے ہوئے لکھا، ’’باپ فوج میں، بیٹا فوج میں۔ حب الوطنی ان کے خون میں دوڑتی ہے۔ پھر بھی بی جے پی حکومت نے قوم کے اس بہادر بیٹے کو گولی مار کر ہلاک کر دیا، صرف اس لئے کہ وہ لداخ اور اپنے حقوق کیلئے کھڑا تھا۔ باپ کی درد بھری آنکھیں ایک سوال کرتی ہیں کہ کیا آج قوم کی خدمت کرنے کا یہی صلہ ملا ہے؟ ‘‘
انہوں نے مزید لکھا،’’ہم مطالبہ کرتے ہیں کہ لداخ میں ہونے والی ان ہلاکتوں کی غیرجانبدارانہ عدالتی تحقیقات کرائی جائیںاور مجرموں کو سخت سے سخت سزا دی جائے۔‘‘
اپوزیشن لیڈر راہل گاندھی نے مزید لکھا ،’’ وزیر اعظم مودی نے لداخ کے عوام کو دھوکہ دیا ہے۔ وہ اپنے حقوق مانگ رہے ہیں۔ انہیں لوگوں سے بات کرنی چاہئے اور تشدد وخوف کی سیاست بند کردینی چاہئے۔ ان سے بات چیت کریں، تشدد اور خوف کی سیاست بند کریں۔‘‘
راہل گاندھی نے سابق فوجی کے والد تسیرنگ نمگیال کا ویڈیو شیئر کیا جن کا ۴۶؍سالہ بیٹا تسیوانگ تھرچم ہلاک ہونے والے۴؍افراد میں شامل ہے۔ نمگیال اس ویڈیو میں کہہ رہے ہیں ، ’’اگر ایس ایس پی یا ڈی سی کے بیٹے مارے جاتے تو وہ کیسا محسوس کرتے؟ وہ سمجھتے ہیں کہ ایک غریب کے بیٹے کو مارنا آسان ہے۔ کیا وہ برداشت کر سکتے تھے اگر ان کے بچے مارے جاتے؟ وہ نہیں کر سکتے تھے۔‘‘ انہوں نے مزید کہا ،’’ وہ ۳۲؍سال تک فوج میں رہے اور انہیں دشوارگزار علاقے میں تعیناتی ملی۔‘‘
خیال رہے کہ لداخ کے پولیس سربراہ سنگھ جموال نےسنیچر کو دعویٰ کیا تھا کہ فورسیز نے اپنے دفاع میں گولی چلائی تھی کیونکہ ۵؍ سے ۶؍ہزار کی بھیڑ لیہہ ہل ڈیولپمنٹ کونسل کے دفتر کی طرف بڑھ رہی تھی۔ تشدد کےاس واقعہ کے بعد بھوک ہڑتال کرنے والے ماحولیاتی کارکن سونم وانگ چک کے خلاف نیشنل سیکوریٹی ایکٹ کے تحت مقدمہ درج کرکے انہیں جیل بھیج دیا گیاجس کی کانگریس سمیت اپوزیشن کی دیگر جماعتوں نے بھی سخت مذمت کی ہے۔ لداخ میں تشدد کے واقعہ اور سونم وانگ چک کی گرفتاری کے بعد سے ہی اپوزیشن لگاتار اس معاملہ پر حکومت کو گھیرنے کی کوشش کررہی ہے۔
لیہہ: کرفیو میں نرمی
لیہہ میں گزشتہ ہفتے پرتشدد جھڑپوں کے بعد منگل کو کرفیو میں ۷؍ گھنٹے کی ڈھیل دی گئی۔اس دوران بازاروں میں آہستہ آہستہ رونق لوٹتی نظر آئی اور لوگوں کو کچھ راحت ملی۔ یہ نرمی صبح۱۰؍ بجے سے شام۵؍ بجے تک دی گئی جس کے دوران لازمی اشیاء کی دکانیں کھلنے کی اجازت تھی۔ حکام کے مطابق پیر کو بھی شام ۲؍ بجے سے ۲؍گھنٹے کے لئے کرفیو ہٹایا گیا تھا تاکہ۲۴؍ ستمبر کو جھڑپوں میں جاں بحق۴؍ افراد کی آخری رسومات کے بعد ماحول کو معمول پر لایا جا سکے۔