سپریم کورٹ نے شدید ترین ناراضگی ظاہر کی ،شندے گروپ کی نا اہلی پر سماعت کیلئے اسپیکر کو وقت طے کرنے کا حکم ، سالیسٹر جنرل کو اسپیکر سے ملاقات کی ہدایت۔
EPAPER
Updated: October 18, 2023, 9:28 AM IST | Agency | New Delhi
سپریم کورٹ نے شدید ترین ناراضگی ظاہر کی ،شندے گروپ کی نا اہلی پر سماعت کیلئے اسپیکر کو وقت طے کرنے کا حکم ، سالیسٹر جنرل کو اسپیکر سے ملاقات کی ہدایت۔
سپریم کورٹ نے منگل کو مہاراشٹر اسمبلی کے اسپیکر راہل نارویکر پر شدید برہمی کا اظہار کرتے ہوئے نہ صرف ان پر تنقید کی بلکہ انہیں آخری موقع دیا کہ وہ اپنا رویہ سدھاریں اور وزیراعلی ایکناتھ شندے اور شیوسینا کے دیگر ایم ایل ایز کے خلاف دائر نااہلی کی درخواستوں پر فیصلہ کرنے کے لئے ایک حقیقت پسندانہ ٹائم لائن طے کریں۔ اب اس معاملے کی اگلی سماعت ۳۰؍ اکتوبر کوہو گی جس میں مہاراشٹر کے اسپیکر کی جانب سے کورٹ کو بتانا ہوگا کہ وہ کتنی مدت میں نا اہلی کی درخواستوں پر سماعت کریں گے۔چیف جسٹس ڈی وائی چندر چڈ، جسٹس جے بی پاردی والا اور جسٹس منوج مشرا کی بنچ نے اسپیکر پر فیصلہ کرنےمیں تاخیر پر ایک بار پھر شدید ناراضگی ظاہر کی ۔ بنچ نے کہا کہ مجموعی طور پر نااہلی کی درخواستوں کا ایک سیٹ جون ۲۰۲۲ءسے زیر التوا ہے۔ بنچ نے کہا کہ دسویں شیڈول (دَل بدلی قانون) کے بنیادی مقصد کو ناکام نہیں کیا جاسکتا ہے اس لئے ضروری ہے کہ اسپیکر فیصلہ کرنے کی ڈیڈ لائن طے کریں ۔ اگر وہ ایسا نہیں کرسکتے ہیں تو پھر یہ کام ہمیں کرنا ہو گا اور ہم اپنے طریقے سے کریں گے ۔
اس سے قبل سالیسٹر جنرل تشار مہتا جو اسمبلی اسپیکر کی طرف سے پیش ہوئے تھے ، نے بنچ کے سامنے عرض کیا کہ جہاں تک نااہلی کی درخواست پر فیصلہ کرنے کا تعلق ہے، حقیقت پسندانہ ٹائم فریم طے کرنے کے لئےکچھ اور وقت دیا جانا چا ہئے۔ عدالت نے اس پر برہمی ظاہر کی اور کہا کہ جون سے اس معاملے میں التوا ہے۔ اگر مزید وقت مانگا جارہا ہے تو یہ درست طریقہ نہیں ہے کہ کئی درخواستوں کو اس طرح معلق کیا جارہا ہے اور پھر مزید وقت مانگا جارہا ہے۔ بہر حال کورٹ نے تشار مہتا کی درخواست کو قبول کر لیا لیکن اس کے ساتھ ہی انہیں ہدایت دی کہ وہ دسہرہ کی تعطیلات کے دوران پریزائیڈنگ افسران اور اسپیکر سے ذاتی طور پر اس معاملے پر بات کریں اور کورٹ کو مطلع کریں کہ ان کا کیا ارادہ ہے۔
سپریم کورٹ نے مہاراشٹر کے سابق وزیر اعلیٰ ادھو ٹھاکرے اور نیشنلسٹ کانگریس پارٹی (این سی پی) کے لیڈرجینت پاٹل کی طرف سے دائر کردہ علاحدہ علاحدہ درخواستوں پر اگلی سماعت ۳۰؍ اکتوبر کو مقرر کی ہے اور اسپیکر کو یہ ہدایت دی ہے کہ وہ اس سے قبل ہی سماعت کی ٹائم لائن طے کردیں ۔ یاد رہے کہ ۱۳؍اکتو بر کو بھی چیف جسٹس کی سربراہی میں اسی بنچ نے اسمبلی اسپیکر کی جانب سے فیصلہ کرنے میں تاخیر پر ناراضگی کا اظہار کیا تھا اور کہا تھا کہ `نااہلی کی کارروائی صرف دکھاوے تک محدود نہیں رہ سکتی `۔ تب بنچ نے ۱۷؍ اکتوبر تک ٹائم ٹیبل دینے کو کہا تھا لیکن جب اس تاریخ کو بھی سماعت کا ٹائم ٹیبل نہیں ملا تو پھر کورٹ نے اسپیکر کو تنقیدوں کی زد پر لے لیا اور کہا کہ ہمیں کارروائی کرنے پر مجبور نہ کیا جائے۔ چونکہ یہ آئینی معاملہ ہے اور ہم آئین کے محافظ ہیں اس لئے اس معاملے میں تساہل برتنے یا اسے التوا میں ڈالنے کی کوشش نہ کی جائے۔اسپیکر کو اس چیز کا احساس ہونا چا ہئے کہ وہ معاملے کو سنجیدگی سے لے رہے ہیں۔ جون کے بعد سے اس معاملے میں کوئی پیش رفت نہیں ہوئی جو مناسب نہیں۔ انہیں کوئی دِکھاوا نہیں کرنا چاہئے بلکہ سماعت ہونی چا ہئے۔
یاد رہے کہ سپریم کورٹ کی آئینی بنچ نے ۱۱؍مئی کو اسپیکر کو ہدایت دی تھی کہ وہ اس معاملے کا معقول مدت میں فیصلہ کریں لیکن اس کے بعد سے ہی یہ تمام درخواستیں التوا میں ہیں کیوں کہ اسپیکر نے سماعت شروع کرنے کیلئے جو وقت طے کیا ہے وہ کافی طویل ہے اور اس دوران اسمبلی الیکشن بھی آسکتا ہے۔ اسی کے خلاف ادھو گروپ دوبارہ سپریم کورٹ سے رجوع ہوا ہے اور کارروائی کا مطالبہ کررہا ہے۔ اس درمیان سالیسٹر جنرل تشار مہتا نے عدالت سے کہا کہ وہ دسہرہ کی چھٹیوں کے دوران ذاتی طور پر مہاراشٹر اسمبلی اسپیکر سے اس معاملے میں بات چیت کریں گے اور انہیں وقت طے کرنے پر آمادہ کرنے کی کوشش کریں گے۔
واضح رہے کہ اسپیکر نارویکر کی جانب سے فیصلہ کرنے میں تاخیر کی یہی وجہ سمجھ میں آتی ہے کہ اگر وہ سماعت کریں گے تو انہیں سپریم کورٹ کے مئی کے فیصلے کی رو سے اپنا فیصلہ کرنا ہو گا جس کے تحت وزیر اعلیٰ شندے کو نا اہل قرار دیا جاسکتا ہے۔ اگر ایسا ہوا تو ریاست میں ایکناتھ شندے کی قیادت میں بنائی گئی ۳؍ پارٹیوں کی سرکار گر جائے گی۔ اگر وہ ادھو ٹھاکرے گروپ کی عرضیاں خارج کردیتے ہیں تو انہیں اس کا جواز سپریم کورٹ میں پیش کرنا ہو گا کیوں کہ ادھو گروپ بلاشبہ سپریم کورٹ سے رجوع کرے گا۔ ان حالات کی وجہ سے بتایا جارہا ہے کہ اسپیکر راہل نارویکر مخمصے میں پڑ گئے ہیں کہ کیا فیصلہ کریں۔ ہر دو صورتوں میں انہیں جوابدہ ہونا پڑیگا۔