Inquilab Logo

عدلیہ کی سالمیت کو خطرہ قرار دیتے ہوئے ۶۰۰؍ وکلا کا چیف جسٹس آف انڈیا کو مکتوب

Updated: March 28, 2024, 3:03 PM IST | New Delhi

ہندوستان بھر کے ۶۰۰؍ وکلاء نے چیف جسٹس ڈی وائی چندر چڈ کو خط لکھا ہے کہ ’’مفاد پرست گروہ‘‘ عدالتی عمل میں ہیرا پھیری، فیصلوں پر اثر انداز اور بے بنیاد الزامات عائد کرکے عدلیہ کی سالمیت کو نقصان پہنچا رہا ہے۔

Photo: INN
تصویر: آئی این این

عدالتی سالمیت کے خطرے کے حوالے سے ہندوستان بھر کے ۶۰۰؍ وکلاء جن میں ایڈوکیٹ ہریش سالوے اور بار کونسل آف انڈیا کے چیئرمین منن کمار شامل ہیں نے چیف جسٹس آف انڈیا ڈی وائی چندرچڈ کو مکتوب لکھا ہے۔ وکلاء نے ’’مفاد پرست گروہ‘‘ کی مذمت کی ہے جو عدالتی عمل میں ہیرا پھیری، عدالتی فیصلوں پر اثر انداز اور بے بنیاد الزامات اور سیاسی ایجنڈوں کے ذریعے عدلیہ کی ساکھ کو متاثر کرنے کی کوشش کررہا ہے۔
چیف جسٹس کو لکھے گئے خط کے مطابق یہ پینترے خاص طور پر اُن معاملات میں آزمائے جاتے ہیں جن میں سیاسی اہلکار بدعنوانی میں ملوث ہوتے ہیں۔ یہاں عدلیہ کے فیصلوں پر اثر انداز ہونے اور عدلیہ کو بدنام کرنے کی کوششیں سب سے واضح ہیں۔ خط میں جن خطرناک حربوں کا تذکرہ کیا گیا ہے، ان میں سے ایک کا مقصد عدلیہ کے کام کاج کے بارے میں ایک متزلزل نظریہ پیش کرنا ہے، جس کا موازنہ عدالتوں کے `’سنہری دور‘ سے کرنا ہے۔ وکلاء نے زور دے کر کہا کہ اس طرح کے بیانیے کا مقصد عدالتی نتائج کو متاثر کرنا اور عدلیہ پر عوام کے اعتماد کو ختم کرنا ہے۔
خط میں ’’بنچ فکسنگ کے من گھڑت نظریہ‘‘ کے بارے میں اظہار تشویش کیا گیا ہے جہاں ججوں کی بنچ پر اثر انداز ہونے اور ججوں کی سالمیت پر بٹہ لگانے کی کوششیں شامل ہیں۔ وکلاء نے ان اقدامات کو نہ صرف توہین آمیز بلکہ قانون کی بالا دستی اور انصاف کے اصولوں کو پامال کرنے کے مترادف قرار دیا ہے۔ خط میں مزید کہا گیا ہے کہ ’’وہ ہماری عدلیہ کا موازنہ ان ممالک سے کررہے ہیں جہاں قانون کی پاسداری تک نہیں کی جاتی اور ہمارے عدالتی اداروں پر الز ام عائد کررہے ہیں کہ ہم غیر منصفانہ عمل کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ یہ صرف تنقیدیں نہیں ہیں، یہ عوام کے اعتماد اور عدالتی نظام پر براہ راست حملہ ہیں جو ہمارے قانون کے اطلاق کیلئے خطرہ ہے۔‘‘ 
انہوں نے سیاسی ادل بدل کے رجحان پر افسوس کا اظہار کیا جہاں قانونی معاملات میں سیاستداں اپنی دلچسپی کی مناسبت سے اپنا موقف بدل لیتے ہیں جس کے سبب عدالتی نظام کی ساکھ کو نقصان پہنچتا ہے۔ وکلاء نے الزام لگایا ہے کہ ’’یہ دیکھنا تعجب خیز ہوتا ہے کہ جن سیاستدانوں نے بدعنوانی کے معاملے میں کسی پر الزام لگایا ہے، وہی عدالت میں اس کا دفاع کرتے ہیں۔ جب عدالت کا فیصلہ ان کی مرضی کے مطابق نہیں آتا تو وہ عدالت کے اندر اور میڈیا میں عدلیہ پر تنقید کرنے میں دیر نہیں لگاتے۔ اس طرح کا دہرا معیار عام آدمی کے دل میں عدلیہ کے احترام کیلئے نقصاندہ ہے۔‘‘
انہوں نے یہ دعویٰ بھی کیا کہ ’’بعض عناصر ایسے ہیں جو اس بات پر اثر انداز ہونے کی کوشش کرتے ہیں کہ ان کے مقدمہ کا جج کون ہوگا اور وہ اس بارے میں سوشل میڈیا پر ایک خاص انداز میں افواہ پھیلاکر ججوں پر دباؤ ڈالنے کی کوشش کرتے ہیں کہ ان کے حق میں فیصلہ ہو۔ ان کا یہ طریقہ وقت کی مناسبت ہوتا ہے، خاص طور پر جب ملک میں انتخابت ہونے والے ہیں۔ ہمیں ۱۹۔۲۰۱۸ء میں ان کی اس قسم کی حرکتوں کی جانب توجہ دلائی گئی تھی جن میں غلط بیانیے بھی شامل تھے۔‘‘
وکلاء نے سپریم کورٹ سے استدعا کی ہے کہ عدلیہ کو تحفظ فراہم کرنے، بیرونی دباؤ سے پاک رکھنے اور قانون کی بالادستی کیلئے ٹھوس اقدامات کرے۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK