کانوڑیاترا کے دوران لاکھوں یاتریوں کی آمد سے اتراکھنڈ میں صفائی کا نظام درہم برہم ہو گیا ہے۔ مقامی افراد اور ماہرین ماحولیات نے سڑکوں پر پھیلی گندگی اور ناقص ویسٹ مینجمنٹ پر شدید تشویش ظاہر کی ہے۔
EPAPER
Updated: July 24, 2025, 5:00 PM IST | New Delhi
کانوڑیاترا کے دوران لاکھوں یاتریوں کی آمد سے اتراکھنڈ میں صفائی کا نظام درہم برہم ہو گیا ہے۔ مقامی افراد اور ماہرین ماحولیات نے سڑکوں پر پھیلی گندگی اور ناقص ویسٹ مینجمنٹ پر شدید تشویش ظاہر کی ہے۔
جیسے جیسے اتراکھنڈ میں کانوڑ یاترا کے عقیدت مندوں کی تعداد ہر سال تیزی سے بڑھتی جا رہی ہے، ماحولیاتی ماہرین اور مقامی افراد نے ریاست میں کوڑے کرکٹ کے انتظامات کی انتہائی خراب حالت پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔ مقامی رہائشیوں اور ماہرین ماحولیات نے شکایت کی ہے کہ سڑکوں پر اتنا زیادہ پلاسٹک، ٹھوس اور انسانی فضلہ پھیل چکا ہے کہ گھروں سے باہر قدم رکھنا بھی مشکل ہو گیا ہے۔ کانوڑ یاتری ریاست میں مختلف مقامات سے داخل ہوتے ہیں، جن میں ہردوار، روڑکی اور دہرادون شامل ہیں اور پیدل ہردوار پہنچ کر گنگا جل حاصل کرتے ہیں۔ چونکہ ہر سال یاتریوں کی تعداد بڑھ رہی ہے، اس لئے ریاست میں ایک مضبوط ویسٹ مینجمنٹ سسٹم قائم کرنے کا مطالبہ بڑھتا جا رہا ہے۔ سماجی کارکن انوپ نوٹیال، جو دہرادون میں مقیم ہیں، نے کہا’’آج کل حکومتیں انتظام کےبجائے صرف ریکارڈ بنانے میں دلچسپی رکھتی ہیں۔ انہیں معلوم ہے کہ ہردوار میں عقیدت مند ہر مہینے آئیں گے، لیکن وہ ویسٹ مینجمنٹ کے نظام کو بہتر بنانے کی کوئی سنجیدہ کوشش نہیں کرتیں۔ ہم کافی عرصے سے ایک ویسٹ مینجمنٹ کمیشن کے قیام کا مطالبہ کر رہے ہیں، لیکن اس پر کوئی توجہ نہیں دی گئی۔ ‘‘
یہ بھی پڑھئے: ’’بہار سے جمہوریت کو ختم کرنے کی تیاریاں ہورہی ہیں‘‘
انہوں نے مزید کہا:’’ایسا نہیں ہے کہ کانوڑیاتری ایک دن کیلئے آتے ہیں اور چلے جاتے ہیں۔ وہ کئی دنوں تک ریاست میں رہتے ہیں، مختلف مقامات اور مندروں کی زیارت کرتے ہیں۔ عام انسانوں کی طرح وہ بھی پلاسٹک، ٹھوس، بایومیڈیکل اور فضلہ جنریٹ کرتے ہیں۔ صرف چند بیت الخلا قائم کر دینا یا صفائی کے عملے کی تعداد بڑھانا کافی نہیں۔ ہمیں شور کی آلودگی کے بارے میں بھی سوچنا چاہئے کیونکہ یہ یاتری بڑے ڈی جے سسٹمز کے ساتھ آتے ہیں۔ ہماری تحقیقات کے مطابق اگلے پانچ سے سات برسوں میں کانوڑ یاتریوں کی تعداد ۶۰؍ فیصد تک بڑھ جائے گی۔ ریاست کا پورا ماحولیاتی نظام جیسے درہم برہم ہو چکا ہے، کیونکہ کوئی مکمل منصوبہ بندی نہیں کی گئی۔ آج کل پیدا ہونے والا تمام کوڑا گنگا میں بہہ رہا ہے۔ ‘‘
کچھ ماہرین نے نشاندہی کی کہ مانسون کے دوران بارش کا پانی عقیدت مندوں کے پیدا کردہ زیادہ تر کوڑا کرکٹ کو بہا لے جاتا ہے، لیکن کانوڑ یاترا کے دوران یہ مقدار تین سے چار گنا بڑھ جاتی ہے۔ ایک مقامی صحافی، جنہوں نے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی درخواست کی، نے کہا:’’میں دو دن قبل دہرادون سے ہردوار گیا اور مجھے پورے راستے میں صرف دو عارضی بیت الخلا نظر آئے۔ حکومت نے کہا ہے کہ اب تک۳؍ کروڑ ۵۶؍ لاکھ کانوڑ یاتری ہردوار سے گنگا جل حاصل کر چکے ہیں، اور یاترا کے۹؍ اگست کو ختم ہونے سے پہلے ایک کروڑ مزید یاتری آنے کی توقع ہے۔ سڑکوں کے کنارے رہنے والے افراد نے بتایا کہ وہ اردگرد پھیلے انسانی فضلے کی وجہ سے گھروں سے باہر نہیں نکل سکتے۔ ‘‘
یہ بھی پڑھئے: مہایوتی حکومت کو شرمندہ کرنے والے واقعات کا سلسلہ رکنے کا نام نہیں لے رہا ہے
ہردوار کے سینئر سپرنٹنڈنٹ آف پولیس پرمیندر سنگھ ڈوبھال نے کہا کہ گزشتہ چند دنوں سے روزانہ اوسطاً۵۰؍ لاکھ کانوڑ یاتری گنگا جل حاصل کر رہے ہیں۔ ہردوار نگر نگم کے میونسپل کمشنر نندن کمار نے صحافیوں کو بتایا کہ بلدیاتی حکام ۲۰۲۷ء کے اردھ کمبھ کی تیاری کر رہے ہیں، جسے مہا کمبھ کے طور پر منایا جائے گا، اور کانوڑ یاترا صرف ’’پیش خیمہ‘‘ ہے۔ ‘‘کمار نے مزید کہا’’ہم نے ہردوار کو سات زونز میں تقسیم کیا ہے تاکہ کانوڑ یاترا کے دوران شہر کو صاف رکھا جا سکے اور یہ۲۰۲۷ءکمبھ کی تیاری کا حصہ بھی ہے۔ کئی انسپکٹرز کو تعینات کیا گیا ہے، اورایک ہزار سے زیادہ صفائی کے عملے کو تعینات کیا گیا ہے۔ ہر۵۰؍ میٹر پر دو صفائی کارکن موجود ہیں۔ کچرے کے ڈبے اور قابل تحلیل بیگ مختلف مقامات پر رکھے گئے ہیں۔ دکانداروں میں بھی یہ بیگ تقسیم کئے گئے تاکہ وہ کوڑا سڑک پر نہ پھینکیں۔ ۳۰۰؍ سے زائد عارضی بیت الخلا ہردوار میں نصب کئے گئے ہیں اور صفائی کے عملے کو تین شفٹوں میں مقرر کیا گیا ہے۔ ہمارے پاس ایک بایو کمپوسٹر تھا، لیکن وہ کام نہیں کر رہا۔ ہم نے کچرے کو دبانے کے پلانٹ کیلئے تفصیلی منصوبہ تیار کیا ہے۔ عام دنوں میں ہردوار شہر ۳۰۰؍ سے۳۵۰؍ میٹرک ٹن کچرا پیدا کرتا ہے، لیکن کانوڑ یاترا یا تہواروں کے دوران یہ مقدار ایک ہزار میٹرک ٹن تک پہنچ جاتی ہے۔ ‘‘
انوپ نوٹیال نے کہا کہ۲۰۲۳ء کی کانوڑیاترا کے دوران تقریباً ۳۰؍ ہزار میٹرک ٹن کچرا پیدا ہوا۔ ہمارے پاس ۲۰۲۴ءکے اعداد و شمار نہیں ہیں لیکن اس سال یاتریوں کی تعداد میں نمایاں اضافہ ہوا ہے۔ اگرچہ مذہبی سیاحت ہماری ریاست کیلئے بہت اہم ہے، لیکن فضلہ کو کم کرنا، اس کا جمع کرنا اور ری سائیکلنگ بھی اتنا ہی اہم ہے۔