Inquilab Logo Happiest Places to Work

سی بی آئی کی یک طرفہ تحقیقات کے سبب عوامی اعتماد کم ہو رہا ہے: مدراس ہائی کورٹ

Updated: May 01, 2025, 12:07 PM IST | Chennai

مدراس ہائی کورٹ نے سی بی آئی سے کہا کہ اس کی یک طرفہ تحقیقات کے سبب اس پر عوامی اعتماد کم ہو رہا ہے، عدالت نے مرکزی ایجنسی کو اپنے عمل کو بہتر بنانے اور اعتماد بحال کرنے کی ہدایات جاری کیں۔

Madurai Bench of Madras High Court: Photo: INN
مدراس ہائی کورٹ کی مدورائی بینچ: تصویر: آئی این این

بار اینڈ بینچ کی رپورٹ کے مطابق، مدراس ہائی کورٹ نے پیر کو کہا کہ سی بی آئی (سنٹرل بیورو آف انویسٹی گیشن) میں عوامی اعتماد کم ہو رہا ہے، کیونکہ ایجنسی کے تحقیقاتی عمل پر جانبدارانہ ہونے کے الزامات ہیں۔ عدالت نے کہا، ’’آج کل سی بی آئی کا کام کرنے کا طریقہ اس سطح تک گر چکا ہے کہ ہر کوئی ان کی یک طرفہ تحقیقات پر تنقید کرتا ہے۔ سی بی آئی کے افسران یہ سمجھتے ہیں کہ ان کے پاس بے پناہ اختیارات ہیں اور کوئی ان سے سوال نہیں کر سکتا۔‘‘ عدالت نے مرکزی ایجنسی کو ہدایات جاری کرتے ہوئے کہا کہ وہ اپنے تحقیقاتی عمل کو بہتر بنائے اور عوام کی نظروں میں اپنی ’’اصل تصویر‘‘بحال کرے۔

یہ بھی پڑھئے: کرناٹک ہائی کورٹ نے ایمنسٹی انڈیا اور آکار پٹیل کے خلاف منی لانڈرنگ کیس روک دیا

 بار اینڈ بینچ کے مطابق، مدورائی بینچ کے جسٹس کے کے رام کرشنن نے سفارش کی کہ مرکزی ایجنسی کے ڈائریکٹر کو تحقیقات کی نگرانی کرنی چاہیے تاکہ یہ یقینی بنایا جا سکے کہ مجرمانہ الزامات میں ملوث افراد کو فرسٹ انفارمیشن رپورٹ (ایف آئی آر) اور فائنل رپورٹ میں مناسب طریقے سے شامل کیا جاتا ہے۔ عدالت نے یہ بھی حکم دیا کہ ڈائریکٹر کو اس بات کی نگرانی کرنی چاہیے کہ ثبوت کس طرح جمع کیے جاتے ہیں یا ریکارڈ سے خارج کیے جاتے ہیں۔ بینچ نے کہا کہ ایجنسی کے اندر ایک قانونی ٹیم تشکیل دی جانی چاہیے جو تحقیقاتی افسران کو سپریم کورٹ کے بنائے گئے قانونی اصولوں سے آگاہ کرے، تاکہ ’’بے ضرر مقدمات‘‘ درج کرنے سے بچا جا سکے۔  

یہ بھی پڑھئے: آربی آئی نے بینکوں کو اے ٹی ایم سے ۱۰۰؍ اور ۲۰۰؍ کے نوٹ جاری کرنے کی ہدایت دی

دی نیو انڈین ایکسپریس کی رپورٹ کے مطابق، عدالت نے یہ ہدایات اس وقت جاری کیں جب انہوں نے۲۰۱۹ء میں ایک ٹرونلویلی بینک کو۲؍ کروڑ روپے کے فراڈ کا مجرم ٹھہرائے گئے آٹھ افراد کو بری کر دیا۔ ان پر الزام تھا کہ انہوں نے گائیڈ لائنز کی پابندی نہ کرتے ہوئے قرضے منظور کیے اور حاصل کیے۔ عدالت نے نوٹ کیا کہ بینک نے معاملے کی تحقیقات اس وقت کی جب قرضے پہلے ہی کلیئر ہو چکے تھے، جس کا مطلب یہ تھا کہ کوئی نقصان نہیں ہوا تھا۔ اس کے باوجود، مرکزی ایجنسی نے ان حقائق کو مدنظر رکھے بغیر اس معاملے میں مقدمہ درج کر لیا تھا۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK