Inquilab Logo Happiest Places to Work

فساد کے بعد ستارا کے مسلم باشندے بائیکاٹ کا شکار

Updated: October 13, 2023, 10:00 AM IST | Ali Imran | Satara

مسلمانوں سے ایسے مکانات خالی کروائے جا رہے ہیں جن کے مالک غیر مسلم ہیں جبکہ مسلم دکانداروں سے خریداری بھی بند کر دی گئی ہے ، ہمدردی دکھانے والوں کو دھمکیاں۔

The situation in Satara is apparently `under control` but the animosity persists. Photo: INN
ستارا میں حالات بظاہر ’قابو‘ میں ہیں لیکن عصبیت برقرارہے۔ تصویر:آئی این این

سوشل میڈیا کی ایک متنازع پوسٹ کو بہانہ بنا کر ستارا میں شرپسندوں کے مکانات پر حملہ کیا تھا اور عبادتگاہوں کو نذرآتش کرنے کی کوشش کی تھی۔ اس دوران پولیس نے کئی لوگوں کو گرفتار بھی کیا اور حالات کے قابو میں ہونے کا دعوی کیا لیکن ستارا میں زمینی حالات اور حقیقت کچھ  اور نظر آتی ہے۔ حال ہی میں نیو ز پورٹل ’مکتوب‘ میں غزالہ احمد کی ایک رپورٹ شائع ہوئی ہے جس میں بتایا گیا کہ مسلم دکاندار اب بھی اپنا کاروبار دوبارہ شروع نہیں کر پا رہے ہیں بلکہ وہ ایک طرح کے بائیکاٹ کا شکار ہیں۔ 
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ستاراضلع کے پوسیس والی گائوں میں فساد کے ختم ہوجانے کے بعد مسلمان دیگر مشکلات سے دوچار ہیں۔ جو مسلمان ان مکانات میں رہتے ہیں جن کے مالک غیر مسلم ہیں ان سے مکان خالی کرنے کیلئے کہا جا رہا ہے۔ جبکہ چھوٹے مسلم کاروباری اپنا کاروبار گنوا بیٹھے ہیں۔ انہیں اپنی دکانیں دوبارہ کھولنے کی اجازت نہیں دی جا رہی ہے۔ ایک طرح سے وہ بائیکاٹ کا شکار ہیں۔ خاتون خوانچہ فروش رابعہ بصری بھی انہی میں سے ایک ہیں۔ رابعہ بتاتی ہیں کہ  وہ اور ان کے شوہر سبزی ترکاری بیچ کر گزر بسر کرتے تھے لیکن فسادیوں نے اچانک ان کے گھر پر حملہ کر دیا اور بیٹی کی شادی کیلئے بنائے گئے زیور اور نقدی سب لوٹ لی۔ اس کے بعد سے ہم ایک عارضی مکان میں رہ رہے ہیں۔  ڈر کے مارے ہم نے اپنی دکان بھی بند کر دی۔ وہ کہتی ہیں کہ حالات معمول پر آنے کے بعد جب ہم نے پولیس سے لوٹ مار کے خلاف شکایت کی تو اس نے کہا کہ اس وقت علاقے میں کئی ایسے واقعات ہو رہے ہیں۔ ہم سبھی کی شکایت نہیں سن سکتے۔ جب حالات ٹھیک ہو جائیں گے تب تمہاری شکایت درج کریں گے۔ رابعہ اکیلی نہیں ہیں۔ ان کے علاوہ رپورٹ میں کئی لوگوں کے احوال لکھے گئے ہیں جو فساد کے ایک ماہ بعد بھی اپنے گھر واپس نہیں جا پا رہےہیں اور نہ اپنی دکان کھول پا رہے ہیں۔ ان سارے حالات سے پولیس واقف ہے لیکن وہ کسی بھی طرح کی کارروائی کیلئے تیار نہیں ہے۔ 
 مسلم دکانداروں سے خریداری بھی بند کر دی گئی ہے۔
 اس پورے معاملے پر انقلاب نے معلومات حاصل کی تو پتہ چلا کہ گاؤں میں شرپسندوں کی غنڈہ گردی اورمسجد میں گھس کر تبلیغی جماعت والوں سے مارپیٹ کرنے کے واقعے کو مہینہ بھر گزر جانے کے باوجود کاروباری لحاظ سے اب بھی پوسیس والی گائوں میں ماحول سازگار نہیں ہوسکا ہے۔ بہت سے مسلمان اب تک اپنا کاروبار شروع نہیں کرسکے ہیں۔ اس کے تعلق سے ایڈوکیٹ ارشاد باغبان سے رابطہ قائم کرنے پر انہوں نے نمائندۂ انقلاب کو بتایا کہ’’یہ صحیح ہے کہ اب تک فروٹ والے یا ایسے دوسرے تاجر اپناکاروبار شروع نہیں کرسکے ہیں کیونکہ جہاں وہ دھندہ لگاتے تھے وہاں جگہ کا مسئلہ ہے۔‘‘ انہوں نے کہا ’’دوسری بات یہ کہ فساد کے بعد سے مسلم تاجرو ں کا کاروباربری طرح سے متاثر ہوا ہے اور پہلے کے مقابلے میں کاروبار آدھے سے بھی کم ہوگیاہے۔ یعنی مقامی لوگوں نے اب ان کی دکانوں سے خریداری بند کر دی ہے۔ ‘‘باغبان آگے بتاتے ہیں کہ ’’اسی طرح وہ مسلم تاجر جن کی دکانیں کرائے کی ہیں یا وہ لوگ جو کرایہ پر رہتے ہیں،شرپسندوں کی جانب سے ان کی دکانیں اور مکانات خالی کروانے کی بھی کوشش کی جاتی ہے۔ ‘‘ یاد رہے کہ ان میں سے اکثر دکانیں اور مکانات وہ ہیں جن کے مالک غیر مسلم ہیں۔ ایڈوکیٹ ارشاد باغبان نے یہ بھی بتایا کہ ’’فساد کےدوران اوراس کے بعد سے اب تک گاؤں کے سابق سرپنچ سریش باپو پاٹل کارول بہت مثبت رہا ہے اور آج بھی ان کو جب ایسی کوئی اطلاع ملتی ہے وہ فوراً پہنچتے ہیں اوریہ کوشش کرتے ہیں کہ ایسا نہ ہونے پائے ،مسلم تاجروں سے دکانیں خالی نہ کروائی جائیں اورگاؤں کے سبھی لوگ مل جل کررہیں۔‘‘ لیکن ایک اطلاع یہ بھی ہے جو غیر مسلم حضرات مسلمانوں کے ساتھ اتحاد یا ان سے ہمدردی کا اظہار کرتے ہیں انہیں شرپسند تنظیموں کی جانب سے دھمکی دی جاتی ہے کہ وہ ایسا نہ کریں ورنہ نتائج برے ہوں گے۔ یاد رہے کہ گزشتہ چند ماہ میں مہاراشٹر کے مختلف اضلاع میں ایک ہی پیٹرن کے فسادات ہوئے ہیں۔ یا تو متنازع پوسٹ کے نام پر یا پھر کسی تہوار کے جلوس کے بہانے۔ ان میں اورنگ آباد، کولہاپور، اکولہ اور ستارا شامل ہیں۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK