فورٹیفائی رائٹس نے کہا کہ اراکان آرمی، انسانی حقوق کو برقرار رکھنے کے عہد کے باوجود، من مانی حراست اور ماورائے عدالت قتل و دیگر زیادتیوں کا ارتکاب جاری رکھے ہوئے ہے۔
EPAPER
Updated: October 24, 2025, 10:00 PM IST | Naypyidaw
فورٹیفائی رائٹس نے کہا کہ اراکان آرمی، انسانی حقوق کو برقرار رکھنے کے عہد کے باوجود، من مانی حراست اور ماورائے عدالت قتل و دیگر زیادتیوں کا ارتکاب جاری رکھے ہوئے ہے۔
فورٹیفائی رائٹس (Fortify Rights) کی جانب سے جمعرات کو جاری کی گئی ایک حالیہ رپورٹ کے مطابق، میانمار کی ریاست راکھینے میں ’اراکان آرمی‘ (Arakan Army)، ملک کی نسلی اقلیتوں کو تشدد اور حراست کی دھمکیاں دے کر انہیں جبری اور بلا معاوضہ مشقت پر مجبور کر رہی ہے۔ ان اقلیتی برادریوں میں روہنگیا، ہندو اور چکما شامل ہیں۔ رائٹس گروپ نے خبردار کیا ہے کہ یہ زیادتیاں، بین الاقوامی قانون کے تحت جنگی جرائم کے زمرے میں آسکتی ہیں۔
۴۰ صفحات پر مشتمل اس رپورٹ میں نومبر ۲۰۲۴ء سے اکتوبر ۲۰۲۵ء کے درمیان ہونے والی زیادتیوں کو دستاویزی شکل دی گئی ہے۔ رپورٹ میں زندہ بچ جانے والے افراد کے حوالے سے بتایا گیا ہے کہ انہیں بندوق کی نوک پر اراکان آرمی کیلئے گولہ بارود لے جانے، خندقیں کھودنے اور فوجی قلعے بنانے پر مجبور کیا گیا اور بعض اوقات مہینوں تک آرام یا تنخواہ کے بغیر کام کرایا گیا۔ دوسرے کئی افراد کو کھیتی باڑی، مویشی چرانے یا سڑکوں کی مرمت پر مجبور کیا گیا اور انکار کرنے والوں کو حراست میں ڈال دیا گیا یا انہیں مار پیٹ یا بھاری جرمانے کا سامنا کرنا پڑا۔
فورٹیفائی رائٹس کے انسانی حقوق کے سینئر ماہر یاپ لے شینگ نے بتایا کہ ”میانمار میں اراکان آرمی، روہنگیا، ہندو اور دیگر اقلیتی گروپس کا استحصال کررہی ہے اور انہیں خطرناک حالات میں، مکمل طور پر ان کی مرضی کے خلاف، کام کرنے پر مجبور کیا جا رہا ہے۔“ انہوں نے مزید کہا کہ ”جو لوگ ان کی تعمیل نہیں کرتے، انہیں جسمانی تشدد، گرفتاری اور نقل و حرکت پر پابندیوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔“
رپورٹ کے مطابق، ان زیادتیوں کے بعد زندہ بچ جانے والے ۲۱ گواہوں نے آرمی کے ذریعے منظم جبری مشقت کی تفصیلات بتائیں۔ بوتھیڈانگ ٹاؤن شپ کے ایک روہنگیا شخص نے ۲۰۲۳ء کے اواخر، جب اراکان آرمی نے راکھینے ریاست کے بڑے حصہ پر قبضہ کرلیا تھا، کے عرصے کے واقعات یاد کرتے ہوئے بتایا کہ اسے سیکڑوں لوگوں کے ساتھ ایک مسجد کے اندر بند کر دیا گیا تھا اور مسلح محافظوں کے تحت کام کرنے کا حکم دیا گیا تھا۔
یہ بھی پڑھئے: اسرائیل نے مغربی کنارہ کو ہتھیانے کیلئےمتنازع بل کو منظور کرلیا
اراکان آرمی نے پہلے بھی اسی طرح کے الزامات کی تردید کی ہے اور انہیں ”سیاسی حوصلہ افزائی پر مبنی“ قرار دیا ہے۔ تاہم، فورٹیفائی رائٹس نے کہا کہ آرمی، انسانی حقوق کو برقرار رکھنے کے عہد کے باوجود، من مانی حراست اور ماورائے عدالت قتل سمیت زیادتیوں کا ارتکاب جاری رکھے ہوئے ہے۔ واضح رہے کہ بین الاقوامی انسانی قانون کے تحت، عام شہریوں کو مسلح تنازع سے متعلق مشقت پر مجبور کرنا ممنوع ہے اور جنیوا معاہدوں کے تحت یہ جنگی جرم ہو سکتا ہے۔
اس سے قبل، میانمار کی فوجی جنتا پر بھی ملک بھر میں جبری مشقت استعمال کرنے کا الزام لگایا گیا ہے۔ جون میں انٹرنیشنل لیبر آرگنائزیشن نے حکومتوں پر زور دیا تھا کہ وہ ایسی زیادتیوں کو روکنے اور میانمار کے مسلح گروپس کی فوجی حمایت ختم کرنے کیلئے مربوط کارروائی کریں۔