ڈبلیو ایچ او کے ڈائریکٹر جنرل ٹیڈروس ایڈہانوم گیبریئسس نے بیان دیا کہ جنگ بندی شروع ہونے کے بعد سے بھوک کے بحران کی سنگینی میں کوئی کمی نہیں آئی ہے۔
EPAPER
Updated: October 24, 2025, 7:02 PM IST | Gaza/Geneva
ڈبلیو ایچ او کے ڈائریکٹر جنرل ٹیڈروس ایڈہانوم گیبریئسس نے بیان دیا کہ جنگ بندی شروع ہونے کے بعد سے بھوک کے بحران کی سنگینی میں کوئی کمی نہیں آئی ہے۔
حماس اور اسرائیل کے درمیان ۱۰ اکتوبر سے نافذ العمل جنگ بندی کے باوجود، غزہ میں انسانی امداد، جنگ بندی معاہدے میں طے شدہ سطح سے بہت کم مقدار میں پہنچ رہی ہیں جس کی وجہ سے محصور فلسطینی علاقے میں بھوک کی سنگین صورتحال برقرار ہے۔ عالمی ارادہ صحت (ڈبلیو ایچ او) نے اس صورتحال کو ”تباہ کن“ قرار دیا ہے۔
عالمی خبر رساں ایجنسی اے ایف پی نے غزہ پہنچنے والی امداد کے اعدادوشمار کا جائزہ لیا اور بتایا کہ ۱۰ اکتوبر سے ۲۱ اکتوبر کے درمیان غزہ میں روزانہ اوسطاً صرف ۹۴ ٹرک داخل ہوئے جن پر تقریباً ۱۰۱۱ امدادی ٹن سامان لدا ہوا تھا۔ جنگ بندی معاہدے کے مطابق، غزہ میں روزانہ ۶۰۰ ٹرکوں پر مشتمل امداد کی ترسیل کا ہدف مقرر کیا گیا تھا۔ اس طرح، حالیہ اعدادوشمار کے مطابق، طے شدہ امداد کا ۱۶ فیصد سے بھی کم حصہ فلسطینیوں تک پہنچ رہا ہے۔
یہ بھی پڑھئے: غزہ میں جنگ بندی اور امداد کی ترسیل اولین ترجیح ہونی چاہیے: میکرون
اگرچہ ۱۹ مئی سے ۹ اکتوبر کے درمیان روزانہ ۶۲ ٹرک داخل ہوتے تھے جس میں معمولی اضافہ ہوا ہے۔ لیکن یہ تعداد اب بھی غزہ کی شدید انسانی ضروریات کو پورا کرنے کیلئے کافی نہیں ہے۔ یہ اعداد و شمار اقوام متحدہ (یو این) کے ”۲۷۲۰ میکانزم فار غزہ“ کے ذریعے مرتب کئے گئے تھے، جو رواں سال کے شروع میں اسرائیل کی مہینوں کی ناکہ بندی کے بعد امداد کی ترسیل کا ریکارڈ رکھتا ہے۔
غزہ کا طبی نظام تباہی کے دہانے پر
رپورٹ کے مطابق، ۱۶ اکتوبر کو غزہ میں سب سے زیادہ ۲۰۶ ٹرک داخل ہوئے۔ یہ اضافہ ہو این کے انسانی ہمدردی کے پروگرام کے سربراہ ٹام فلیچر کے بیان کے ایک دن بعد سامنے آیا جنہوں نے خبردار کیا تھا کہ امداد کی ترسیل اب بھی غزہ کے لوگوں کی ”ضرورت کا صرف ایک چھوٹا حصہ ہے۔“
یہ بھی پڑھئے: ’’اسرائیل امداد تقسیم کرنے سے نہیں روک سکتا ‘‘
ڈبلیو ایچ او کے ڈائریکٹر جنرل ٹیڈروس ایڈہانوم گیبریئسس نے غزہ کے حالات پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ جنگ بندی شروع ہونے کے بعد سے بھوک کے بحران کی سنگینی میں کوئی کمی نہیں آئی ہے۔ انہوں نے جنیوا میں نامہ نگاروں کو بتایا کہ ”صورتحال اب بھی تباہ کن ہے کیونکہ جو کچھ داخل ہو رہا ہے وہ کافی نہیں ہے۔“ انہوں نے مزید کہا کہ غزہ کا حفظانِ صحت کا نظام تباہی کے قریب ہے۔ اسپتالوں میں ادویات، آلات اور عملے کی شدید قلت کا حوالہ دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ”غزہ میں کوئی بھی اسپتال مکمل طور پر کام نہیں کر رہا ہے اور ۳۶ میں سے صرف ۱۴ جزوی طور پر کام کر رہے ہیں۔“