Updated: December 26, 2025, 7:02 PM IST
| Naypyidaw
بغاوت کے بعد میانمار اتوار کو عام انتخابات کا پہلا مرحلہ منعقد کرے گا، جو پانچ سال میں ملک کا پہلا انتخاب ہے، اور ایک ایسا عمل جس کے بارے میں ناقدین کا کہنا ہے کہ یہ نہ تو ملک کی کمزور جمہوریت کو بحال کرے گا اور نہ خانہ جنگی کو ختم کرنے میں معاون ہوگا۔
بغاوت کے بعد میانمار اتوار کو عام انتخابات کا پہلا مرحلہ منعقد کرے گا، جو پانچ سال میں ملک کا پہلا انتخاب ہے، اور ایک ایسا عمل جس کے بارے میںناقدین کا کہنا ہے کہ یہ نہ تو ملک کی کمزور جمہوریت کو بحال کرے گا اور نہ خانہ جنگی کو ختم کرنے میں معاون ہوگا۔ملک کے مختلف حصوں میں تین مراحل میں ووٹنگ ہوگی، دوسرا مرحلہ۱۱؍ جنوری اور تیسرا۲۵؍ جنوری کو ہوگا۔فوج نے انتخابات کو کثیر الجماعتی جمہوریت کی بحالی کے طور پر پیش کیا ہے، جس کا مقصد اپنی حکمرانی کو قانونی ظاہر کرنا ہے، جو چار سال قبل آنگ سان سو چی کی حکومت کے تختہ الٹنے کے بعد شروع ہوئی تھی۔فوجی بغاوت نے وسیع پیمانے پر عوامی مخالفت کو جنم دیا جو اب خانہ جنگی میں بدل چکی ہے۔ اس لڑائی نے بہت سے علاقوں میں انتخابات منعقد کرنے کو مشکل بنا دیا ہے جہاں نتیجہ متنازع ہے۔ووٹنگ ملک کے مختلف حصوں میں تین مراحل میں ہوگی، دوسرا مرحلہ۱۱؍ جنوری اور تیسرا۲۵؍ جنوری کو ہوگی۔
دریں اثناء انسانی حقوق اور حزب اختلاف کے گروہوں کا کہنا ہے کہ یہ انتخاب نہ تو آزاد ہوگا اور نہ ہی منصفانہ، اور طاقت فوجی لیڈرسینئر جنرل من آنگ ہلائن کے ہاتھوں میں ہی رہنے کا امکان ہے۔ انٹرنیشنل کرائسس گروپ کے ایک میانمار تجزیہ کار رچرڈ ہورسی نے بتایا کہ یہ انتخاب وہی فوج منعقد کرارہی ہے جس نے۲۰۲۱؍ کی بغاوت کی تیاری کی تھی۔انہوں نے ایسوسی ایٹڈ پریس کو بتایا، ’’یہ انتخابات بالکل قابل اعتبار نہیں ہیں۔ ان میں وہ سیاسی جماعتیں شامل نہیں ہیں جو گزشتہ انتخابات یا اس سے پہلے کے انتخابات میں اچھی کارکردگی دکھائی تھیں۔‘‘ہورسی کا کہنا ہے کہ فوج کی حکمت عملی یہ ہے کہ اس کی حمایت یافتہ یونین سولیڈیریٹی اینڈ ڈویلپمنٹ پارٹی زبردست کامیابی حاصل کرے، اور میانمار براہ راست فوجی حکمرانی سے ایک ایسی حکومت میں تبدیل ہو جائےجسے جمہوری حکومت کہا جائے لیکن درحقیقت فوجی کنٹرول برقرار رہے۔بعد ازاں فوج کے اس اقدام سے چین، بھارت اور تھائی لینڈ جیسے پڑوسی ممالک کو بھی اپنی حمایت جاری رکھنے کا بہانہ مل جائے گا، جس کے بارے میں ان کا دعویٰ ہے کہ یہ میانمار میں استحکام کو فروغ دے گا۔
یہ بھی پڑھئے: بنگلہ دیش مسلمانوں، ہندوؤں، بدھسٹوں اور عیسائیوں کا ہے: طارق رحمان
واضح رہے کہ مغربی ممالک نے میانمار کے حکمران جنرلوں کے خلاف ان کے جمہوریت مخالف اقدامات اور اپنے مخالفین کے خلاف ظالمانہ جنگ کی وجہ سے پابندیاں برقرار رکھی ہیں۔فوج نے یکم فروری ۲۰۲۱ءکو ووٹر رجسٹریشن میں بے قاعدگیوں کا الزام عائد کرکے اقتدار پر قبضہ کر لیا تھا۔ تاہم اتوار کو ملک کے۳۳۰؍ ٹاؤن شپ میں سے۱۰۲؍ میں ووٹ ڈالے جائیں گے۔۱۱؍ جنوری اور ۲۵؍ جنوری کو مزید مرحلے ہوں گے، جبکہ۶۵؍ ٹاؤن شپ ایسے ہیں جہاں نسلی گوریلا گروہوں اور مزاحمتی قوتوں کے ساتھ جاری تصادم کی وجہ سے انتخاب نہیں ہوں گے۔اگرچہ۵۷؍ جماعتوں نے امیدوار کھڑے کیے ہیں، لیکن زیادہ تر اپنے اپنے گھریلو ریاستوں یا علاقوں میں ہی امیدوار کھڑے کر رہی ہیں۔ چھ جماعتیں قومی سطح پر مقابلہ کر رہی ہیں اور سیاسی طاقت حاصل کرنے کے لیے بڑی تعداد میں نشستیں جیتنے کی امید کر رہی ہیں۔، لیکن قواعد کی رو سے فوج نواز یو ایس ڈی پی کے نئی حکومت کی قیادت کرنے کا قوی امکان ہے۔
یہ بھی پڑھئے: نیو یارک: ٹائمز اسکوائر میں ’’یسوع فلسطینی ہیں‘‘ بل بورڈ، سیاحوں کا ملا جلا ردعمل
کل ملا کر تقریباً۵۰۰۰؍ امیدوار قومی مقننہ کے دونوں ایوانوں اور ریاستی و علاقائی ایوان میں ۱۱۰۰؍سے زیادہ نشستوں کے لیے مقابلہ کر رہے ہیں، حالانکہ اصل نشستوں کی تعداد اس سے کم ہوگی جہاں حلقوں میں ووٹنگ نہیں ہوگی۔یونین الیکشن کمیشن نے اہل ووٹرز کی کل تعداد ابھی تک جاری نہیں کی ہے، لیکن ۲۰۲۰میں یہ تعداد۳۷؍ ملین سے زیادہ تھی۔میانمار کی۸۰؍ سالہ سابق لیڈر اور ان کی پارٹی اس انتخاب میں حصہ نہیں لے رہی ہیں۔سو چی فی الحال 27 سالہ قید کی سزا کاٹ رہی ہیں، اور ان کی نیشنل لیگ پارٹی کو نئے فوجی قواعد کے تحت سرکاری طور پر رجسٹر کرنے سے انکار کرنے کے بعد تحلیل کر دیا گیا تھا۔دیگر جماعتیں بھی ووٹ کا بائیکاٹ کر رہی ہیں یا ایسے حالات میں مقابلہ کرنے سے انکار کر چکی ہیں جو ان کے بقول غیر منصفانہ ہیں۔انٹرنیشنل کرائسس گروپ کے ہورسی کا خیال ہے کہ انتخابات کے بعد، میانمار میں مزید تنازع بڑھنے کا امکان ہے کیونکہ مخالفین فوج کی عوامی مقبولیت میں کمی ثابت کرنے کی کوشش کریں گے۔