کرناٹک حکومت کی جانب سے میسور دسہرہ جشن کے افتتاح کیلئے بکر پرائز یافتہ مصنفہ بانو مشتاق کے انتخاب نے نیا تنازع کھڑا کردیا ہے۔ اس فیصلے کے خلاف اشتعال انگیز سوشل میڈیا پوسٹس پر پولیس نے دو افراد کے خلاف مقدمہ درج کیا ہے۔
EPAPER
Updated: August 25, 2025, 4:13 PM IST | Mysore
کرناٹک حکومت کی جانب سے میسور دسہرہ جشن کے افتتاح کیلئے بکر پرائز یافتہ مصنفہ بانو مشتاق کے انتخاب نے نیا تنازع کھڑا کردیا ہے۔ اس فیصلے کے خلاف اشتعال انگیز سوشل میڈیا پوسٹس پر پولیس نے دو افراد کے خلاف مقدمہ درج کیا ہے۔
کرناٹک حکومت کے فیصلے پر کہ۲۰۲۵ء کے میسورو دسہرہ کا افتتاح بوکر پرائز یافتہ مصنفہ بانو مشتاق سے کرایا جائے، تنازع کھڑا ہوگیا ہے۔ اس فیصلے کے خلاف اسلام مخالف اور اشتعال انگیز سوشل میڈیا پوسٹس پر اُڈپی ضلع پولیس نےسنیچر کو دو الگ الگ ایف آئی آر درج کیں۔ پہلا مقدمہ اس وقت درج کیا گیا جب کولور پولیس اسٹیشن کے سوشل میڈیا مانیٹرنگ سیل کے سنتوش کولال نے جمعہ کی شام جگییش اُڈوپا کی ایک فیس بک پوسٹ کو رپورٹ کیا۔ اُڈوپا نے حکومت کے انتخاب کو تنقید کا نشانہ بنایا اور کہا کہ یہ ’’ایک مخصوص برادری کو خوش کرنے کیلئے ہندو مذہب کی توہین‘‘ ہے اور سنگین نتائج کی وارننگ دی۔ پولیس کا کہنا ہے کہ یہ پوسٹ اشتعال انگیز تھی اور فرقہ وارانہ ہم آہنگی کیلئے خطرہ بن سکتی تھی۔
یہ بھی پڑھئے: ووٹر ادھیکار یاترا کو مزید مضبوطی ملنے کی توقع
اسی دوران، کارکلا رورل پولیس اسٹیشن کے سب انسپکٹر سندر نے ’سدیپ شیٹی نٹے‘ نامی پیج پر ایک اور فیس بک پوسٹ دیکھی۔ اس پوسٹ میں بانو مشتاق کے انتخاب پر اعتراض کیا گیا اور کہا گیا کہ ’’دسہرہ ایک ہندو ثقافتی تہوار ہے جو ہندو روایت کے مطابق منایا جاتا ہے‘‘۔ پوسٹ میں یہ بھی سوال اٹھایا گیا کہ ’’جو شخص سناتن ہندو ثقافت کو نہیں مانتا اسے افتتاح کیلئے کیوں بلایا گیا؟‘‘ مزید الزام لگایا گیا کہ ’’اینٹی ہندو کانگریس ہندو جذبات کو ٹھیس پہنچا رہی ہے‘‘۔ دونوں پوسٹس پر بھارتیہ نیائے سنہیتا (BNS) کی دفعہ ۳۵۳؍(۲) کے تحت مقدمے درج کئے گئے، جو ان مواد پر لاگو ہوتی ہے جو برادریوں کے درمیان دشمنی بھڑکانے کا سبب بنے۔
بتا دیں کہ بانو مشتاق نے مئی۲۰۲۵ء میں اپنے کنڑ افسانوی مجموعے ’’دل کا چراغ‘‘ (جسے دیپا بھاستھ نے ترجمہ کیا) پر انٹرنیشنل بکر پرائز جیتا تھا۔ وہ یہ اعزاز پانے والی پہلی کنڑ زبان کی مصنفہ اور پہلی افسانہ نگار بنیں۔ ۱۲؍ کہانیوں پر مشتمل یہ مجموعہ، جو۱۹۹۰ء سے۲۰۲۳ء کے درمیان لکھا گیا، گہرائی اور سماجی تبصرے کیلئے وسیع پیمانے پر سراہا گیا ہے۔ ان کے انتخاب کا اعلان کرتے ہوئے وزیراعلیٰ سدارامیا نے ان کی خدمات کی تعریف کی۔ انہوں نے کہا کہ ’’ان کا کسان سنگھ اور کنڑ چلوولی کے ساتھ جدوجہد کا طویل تاریخ رہا ہے، اور وہ ایک ترقی پسند مفکر کے طور پر جانی جاتی ہیں۔ ایسی خاتون ہی سب سے زیادہ مستحق ہیں کہ وہ دسہرہ کا افتتاح کریں۔
I personally hold respect for Bhanu Mushtaq madam as a writer and activist. However, her inaugurating Dasara by offering flowers and lighting the lamp to Goddess Chamundeshwari seems to be in conflict with her own religious beliefs. Madam needs to clarify whether she continues to…
— Basanagouda R Patil (Yatnal) (@BasanagoudaBJP) August 24, 2025
بی جے پی کے معزول لیڈر اور ایم ایل اے باسن گوڈا پٹیل یتنال نے بھی بانو مشتاق کے انتخاب پر اعتراض کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ تہوار کے مذہبی رسومات میں ان کی شرکت ان کے ذاتی عقیدے سے ٹکرا سکتی ہے۔ یتنال نے کہا اور زور دیا کہ بانو مشتاق کو یہ وضاحت کرنی چاہئے کہ کیا وہ اب بھی اسلام پر عمل پیرا ہیں جو صرف ایک خدا اور ایک مقدس کتاب پر ایمان رکھنے پر زور دیتا ہے یا پھر وہ یہ مانتی ہیں کہ سب راستے بالآخر ایک ہی موکشا تک لے جاتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اس طرح کی ’’وضاحت‘‘ کے بغیر بانو مشتاق کا افتتاح کرنا ’’مناسب نہیں ‘‘ لگتا۔ یتنال نے مزید کہا کہ ’’انہیں یقیناً تہوار کی ثقافتی یا ادبی تقریبات کے افتتاح کیلئے بلایا جا سکتا ہے، لیکن مذہبی افتتاح سے گریز کرنا چاہئے۔ بی جے پی کے رکن پارلیمان تیجسوی سوریہ نے بھی تنازع پر اپنی رائے دی اور زور دیا کہ بانو مشتاق کو اپنا موقف واضح کرنا ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ ’’انہیں یہ اعلان کرنا چاہئے کہ وہ دیوی چامونڈیشوری پر ایمان رکھتی ہیں، تبھی انہیں دسہرہ کا افتتاح کرنے کی اجازت دی جانی چاہئے۔ ‘‘