سکھ برادری نے مہاراشٹر حکومت کی جانب سے ناندیڑ سکھ گرودوارہ سچکھنڈ سری حضور اپچا ل نگر صاحب ایکٹ ۱۹۵۶ء میں کی گئی حالیہ ترامیم کے خلاف سخت ناراضگی کا اظہار کرتے ہوئے اسے ان کے مذہبی معاملات میں براہ راست مداخلت قرار دیتے ہوئے اس کی مذمت کی ہے۔ ایکٹ میں ترمیم کے بعد ریاستی حکومت کو ایس جی پی سی کے ۱۲؍ اراکین منتخب کرنے کا اختیار حاصل ہوگیا ہے۔
ناندیڑ گوردوارہ۔ تصویر : آئی این این
سکھ برادری نے مہاراشٹر حکومت کی جانب سے ناندیڑ سکھ گرودوارہ سچکھنڈ سری حضور اپچال نگر صاحب ایکٹ ۱۹۵ء میں کی گئی حالیہ ترامیم کے خلاف سخت ناراضگی کا اظہار کرتے ہوئے اسے ان کے مذہبی معاملات میں براہ راست مداخلت قرار دیتے ہوئے اس کی مذمت کی ہے۔ یہ ترمیم شرومنی گرو دوارہ پربندھک کمیٹی (ایس جی پی سی) کے ارکان کی تقرری میں ریاستی حکومت کو بھی اختیار دیتی ہے اور اس نےناندیڑ ضلع میں سکھ برادری کے درمیان احتجاج کو جنم دیا۔
نظر ثانی شدہ قانون سازی کے تحت ریاستی حکومت کو ایس جی پی سی کے ۱۷؍ ارکان میں سے ۱۲؍ کو نامزد کرنے کا اختیار حاصل ہوتا ہے جس سے اس عمل میں ایس جی پی سی کا اختیار کم ہو جاتا ہے۔ اس اقدام سے سکھ برادری کے اندر کمیٹی کے فیصلوں پر حکومت کے ممکنہ اثر و رسوخ کے حوالے سے خدشات بڑھ گئے ہیں۔ ایس جی پی سی جو ناندیڑ میں مقدس تخت حضور صاحب گردوارہ کے انتظامات کی ذمہ دار ہے، نے اس ترمیم کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ یہ ترمیم سکھوں کی نمائندگی کو مجروح کرتی ہے اور کمیٹی کی خود مختاری سے سمجھوتہ کر تی ہے۔
گردوارہ سچکھنڈ بورڈ ناندیڑ، سکھوں کیلئے مذہبی اور ثقافتی اہمیت رکھتا ہے، یہ وہ مقام ہے جہاں سکھوں کے دسویں گرو گرو گوبند سنگھ کا انتقال ہوا تھا۔ ایس جی پی سی کے صدر ہر جندر سنگھ دھامی نے مہاراشڑ حکومت کے اقدامات پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ یہ سکھ برادری کے جذبات کے احترام کی کمی کو ظاہر کرتے ہیں۔ انہوں نے اس مسئلہ کو حل کرنے کیلئے سکھ تنظیموں کے ساتھ بامعنی بات چیت کا مطالبہ کیا اور حکومت پر زور دیا کہ وہ اپنے مو قف پر نظر ثانی کرے۔
واضح رہے کہ یہ پہلا موقع نہیں ہے جب مہاراشٹر حکومت کو سکھوں کے معاملات میں مداخلت کرنے پر ردعمل کا سامنا کرنا پڑا ہو۔ اس طرح کے مظاہرے ۲۰۱۵ء میں حکومتی ترامیم کے بعد بھی ہوئے تھے جس میں اسے براہ راست بورڈ کے صدر کی تقرری کےاختیارات دئے گئے تھے، تقرری کایہ اختیار پہلے اراکین کو حاصل تھا۔