Inquilab Logo Happiest Places to Work

ناندیڑ : نجی اسکولوں کی فیس میں بے تحاشہ اضافہ

Updated: June 23, 2025, 12:21 PM IST | ZA Khan | Nanded

والدین و سرپرستوں کی شکایت، عوامی نمائندے خاموش تماشائی۔

Picture: INN
تصویر: آئی این این

ناندیڑ سمیت مہاراشٹر کے مختلف اضلاع میں نجی اسکولوں نے نئے تعلیمی سال کے آغاز سے قبل فیس میں زبردست اضافہ کر دیا ہے، جس کے سبب والدین کی مالی پریشانیاں شدت اختیار کر گئی ہیں۔ اسکول کے تعلیمی مواد، یونیفارم، شناختی کارڈ اور دیگر لازمی اشیاء کے نام پر ہزاروں روپے وصول کیے جا رہے ہیں، جبکہ متعلقہ قانون اور ضوابط کی کھلی خلاف ورزی ہو رہی ہے۔ افسوسناک بات یہ ہے کہ عوامی نمائندے اور ضلع پریشد کا محکمہ تعلیمات اس حساس مسئلے پر خاموشی اختیار کیے ہوئے ہیں۔ والدین کا کہنا ہے کہ ضلع پریشد اسکولوں میں جو یونیفارم۲۰۰؍ روپے میں فراہم کیا جاتا ہے، وہی یونیفارم نجی اسکولوں میں ۳؍ سے ۴؍ ہزار روپے تک کی قیمتوں پرفروخت کیے جا رہے ہیں ۔ ایک مشہور اسکول میں صرف موزوں کا ایک جوڑا ۵۲۷؍ روپے میں دیا جا رہا ہے، جبکہ شناختی کارڈ کے لئے بھی اضافی۲۵۰؍ روپے وصول کیے جا رہے ہیں۔ شہر کے وازرآباد علاقے کی ایک معروف اسکول نے پہلی جماعت میں داخلہ دینے کے لیے نرسری، ایل کے جی اور یوکے جی کی۳؍ سالہ فیس بھی یکمشت وصول کی ہے۔ چونکہ ’ڈونیشن‘کے مطالبے پر قانونی گرفت ممکن ہے، اسلئے اسکول انتظامیہ اب اس طرح کے حربے اپنا رہی ہے۔ اس بابت ایک آڈیو کلپ بھی وائرل ہوئی ہے، جس میں اسکول سربراہ کسی سرپرست سے کہہ رہے ہیں کہ اگر آپ کی مالی حیثیت نہیں ہے تو فون نہ کیجیے۔ 
 مقامی عوامی نمائندے جو معمولی مسائل پر بھی آواز بلند کرتے ہیں، اس اہم عوامی مسئلے پر چپی سادھے بیٹھے ہیں۔ حال ہی میں ضلع منصوبہ بندی کمیٹی کی میٹنگ میں بھی اس مسئلے پر کسی رکن اسمبلی یا ایم پی نے توجہ نہیں دی۔ مہاراشٹر تعلیمی ادارے فیس ریگولیشن ایکٹ ۲۰۱۱ء کے مطابق، اسکول صرف گزشتہ تعلیمی سال کی فیس میں زیادہ سے زیادہ۱۵؍ فیصد اضافہ ہر دو سال بعد کر سکتے ہیں۔ مگر اکثر اسکول نہ صرف اس قانون کو نظرانداز کر رہے ہیں، بلکہ اپنی مرضی سے من مانی فیس وصول کر رہے ہیں، جس کی نگرانی کرنے والا محکمہ بھی خاموش دکھائی دیتا ہے۔ بعض والدین نے ممبئی کے ایم ایل اے مرجی پٹیل سے شکایت کی، جنہوں نے تعلیمی محکمے کے افسران کے ہمراہ اسکول پہنچ کر انتظامیہ کو سخت ہدایت دی کہ فیس کے معاملے میں شفافیت برتی جائے۔ اس دوران عوامی حلقوں سے مطالبہ کیا جا رہا ہے کہ فیس ریگولیشن کے مطابق تفصیلی جانچ کی جائے، اور اگر کوئی اسکول مقررہ حدود سے زیادہ فیس وصول کرتا ہے تو وہ فوری طور پر والدین کو واپس کی جائے۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK